Maktaba Wahhabi

37 - 173
کے ساتھ پہلا شاہ ولی اللہ صاحب کا فارسی ترجمہ تھا۔ دوسرا شاہ رفیع الدین صاحب کا اردو ترجمہ اور تیسرا تھا شاہ عبدالقادر صاحب کا اردو ترجمہ۔ اس طرح تینوں باپ بیٹوں کے یک جا ترجمے معرضِ اشاعت میں آئے اور اسے تین ترجموں والا قرآن کہا جاتا تھا۔ یہ قرآن مجید میرے دادا (میاں محمدمرحوم) کے پاس تھا اور وہ روزانہ صبح کے وقت اسی قرآن پر تلاوت کیا کرتے تھے۔ بہرحال برصغیر میں پہلا مشہور و متداول فارسی ترجمہ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی کا ہے اور پہلے اردو ترجمے ان کے صاحب زادوں نے کیے۔ اس کے بعد بہت سے اہلِ علم نے ترجمے کیے۔ ڈپٹی نذیر احمد اپنے ترجمۂ قرآن کے مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’جب ایک خاندان کے ایک چھوڑ تین تین ترجمے لوگوں کو مل گئے، ایک فارسی، مولانا شاہ ولی اللہ صاحب کا، اکھٹے دو دو اردو، ایک شاہ عبدالقادر اور ایک شاہ رفیع الدین صاحب کا تو ہر ایک کو ترجمے کا حوصلہ ہوگیا، مگر خاندان شاہ ولی اللہ کے سوا کوئی شخص مترجم ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ وہ ہرگز مترجم قرآن نہیں، بلکہ مولانا شاہ ولی اللہ اور ان کے بیٹوں کے ترجموں کا مترجم ہے کہ انہی کے ترجموں میں رد و بدل، تقدیم و تاخیر کرکے جدید ترجمے کا نام کردیا ہے۔‘‘ نواب صدیق حسن خاں کی خدمتِ قرآن نواب صدیق حسن خاں برصغیر کے کثیر التصانیف عالم تھے۔ انھوں نے عربی، فارسی، اردو؛ تینوں زبانوں میں لکھا۔ تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، عقائد، شعر و شاعری، ادبیات، اخلاق، تصوف وغیرہ مختلف عنوانات سے متعلق انھوں نے 323کتابیں تصنیف کیں۔ صرف قرآن مجید کے موضوع پر ان کی سات کتابیں
Flag Counter