Maktaba Wahhabi

110 - 295
صاحب نے بھی ایک رسالہ لکھا اور اپنے نام کے بجائے مولوی محمد عبد اللہ مئوی کے نام سے شائع کیا۔ مولانا محمد سلیم نے ۱۳۲۴ھ بمطابق ۱۹۰۶ء میں اپنے وطن پھریا میں وفات پائی۔تاریخ وفات ۱۳۲۴ھ’’إنہ في الآخرۃ لمن الصالحین’‘ہے۔ (تراجم علماے حدیث ہند،ص: ۳۸۹،حیات شبلی،ص: ۱۰۰،تذکرہ علماے اعظم گڑھ،ص: ۶۲۳) مولانا محمد فیض اللہ مئوی رحمہ اللہ : مولانا محمد فیض اللہ مئوی رحمہ اللہ ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ مئوناتھ کے رہنے والے تھے،ان کا شمار اپنے دور کے مشاہیرعلما میں ہوتا تھا۔ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی،پھر مولانا سخاوت علی جون پوری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۲۷۴ھ)کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے حلقہ درس میں شامل ہو کر جملہ علومِ مروجہ کی تحصیل کی۔ مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۴۱ھ)لکھتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچپن ہی میں علم سے مشغول رہنے کی توفیق بخشی۔مولانا شیخ سخاوت علی عمری جون پوری رحمہ اللہ سے درسی کتابیں پڑھ کر فنِ معقول اور منقول دونوں میں نامور ہوئے۔‘‘(نزہۃ الخواطر: ۸/۳۶۹) ۱۲۶۲ھ میں مولانا سخاوت علی اپنے ماموں مفتی محمد غوث کے ہمراہ حج بیت اللہ کے لیے حجاز تشریف لے گئے تو ان کی غیر حاضری میں آپ نے مولانا عبد الحلیم لکھنوی فرنگی محلی سے بھی استفادہ کیا،جو ان دنوں نواب ذوالفقار بہادر مرحوم آف نواب باندہ کے مدرسے میں تعلیمی خدمات انجام دے رہے تھے۔ تکمیلِ تعلیم کے بعد اپنے وطن مئو واپس تشریف لائے اور کتاب و سنت کی ترقی و ترویج اور دینِ اسلام کی اشاعت کے سلسلے میں سرگرم عمل ہوئے۔وعظ و تبلیغ کی طرف بہت زیادہ توجہ کی۔شرک و بدعت اور محدثات کی تردید میں ان کی خدمات نمایاں ہیں۔
Flag Counter