Maktaba Wahhabi

111 - 295
وعظ و تبلیغ کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔جب علامہ شبلی نعمانی کے والد شیخ حبیب اللہ نے اعظم گڑھ کے صاحبِ استطاعت مسلمان زعما کے تعاون سے علومِ عربیہ کا ایک مدرسہ قائم کیا تو مولانا فیض اللہ کی خدمات حاصل کی گئیں اور انھیں مدرسے کامدرس اول مقرر کیا گیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۵۳ء)لکھتے ہیں : ’’شیخ(حبیب اللہ)اور شہر کے دوسرے اہلِ استطاعت اصحاب نے مل کر اعظم گڑھ میں علومِ عربیہ کا ایک مدرسہ قائم کیا تھا،جس میں پہلے تھوڑے عرصے تک مولانا سخاوت علی جون پوری مرحوم رحمہ اللہ کے شاگردِ خاص مولوی فیض اللہ صاحب مرحوم رحمہ اللہ مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔‘‘(حیات شبلی،ص: ۷۱) اعظم گڑھ کے علاوہ آپ نے علی گنج،سیوان اور دانا پور پٹنہ کے مدارس میں بھی تدریس فرمائی۔آپ کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔مشہور تلامذہ میں مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۵۳ھ)،علامہ شبلی نعمانی(المتوفی ۱۳۳۲ھ)،مولانا عبد القادر مئوی رحمہ اللہ(المتوفی۱۳۳۱ھ)،مولانا حسام الدین مئوی رحمہ اللہ(المتوفی۱۳۱۰ھ)اور مولانا عبد الغفور دانا پوری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۰۰ھ)خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ مولانا فیض اللہ نہایت ذہین اور تیز فہم تھے۔آپ کے استاد مولانا سخاوت علی عمری جون پوری رحمہ اللہ ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔آپ بہت زیادہ متبع سنت تھے۔آخری عمر میں تدریسی مشاغل میں تخفیف کر کے دانا پور منتقل ہو گئے اور طبابت کرنے لگے تھے۔آپ نے ۱۳ ربیع الاول ۱۳۱۶ھ بمطابق ۱۳ اگست ۱۸۹۸ء میں دانا پور میں وفات پائی۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ قاضی محمد بن عبد العزیز مچھلی شہری رحمہ اللہ : مولانا قاضی ابو عبد اللہ محمد بن عبد العزیز مچھلی شہری رحمہ اللہ برصغیر کے نامور علما
Flag Counter