Maktaba Wahhabi

49 - 295
اور مذہب و اخلاق سے بہت دور ہٹ چکے تھے تو دوسری طرف خارجی اور داخلی قوتیں مسلمانوں کی باہمی نا اتفاقیوں اور گروہ بندیوں سے فائدہ اٹھا کر دینِ اسلام کی کی مخالفت پر کمر بستہ مغل حکومت کو ختم کرنے کے درپے تھیں۔اس وقت شدت سے یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ کوئی ایسا مردِ مجاہد اور عظیم مفکر میدانِ عمل میں اترے،جو اسلامی عقائد کے احیا اور مسلم معاشرے کی معقول تربیت و اصلاح کے لیے انقلابی روح پھونکے۔بلا شبہہ بدنظمی اور انتشار و خلفشار کے اس دور میں دور رس نگاہ رکھنے والی شاہ ولی اللہ کی ذات ستودہ صفات تھی۔وہ عارف کامل علومِ شرعیہ کے محقق،امام اور میدانِ حکمت و عمل کے شہسوار تھے۔آپ برصغیر میں محی السنہ،وارثِ کمالاتِ نبوت اور حجۃ الاسلام ثابت ہوئے،جن کے فیوض گوناگوں سے ملک و ملت اور نظامِ اسلام کی حیات تازہ حاصل ہوئی۔اس مجمعِ علوم و معارف نے پر آشوب دور اور الم انگیز حالات میں پیامِ محمدی کی از سرِ نو تجدید کا بیڑا اٹھایا۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی تنظیم و اصلاح تھی۔‘‘ (شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کی علمی خدمات،ص: ۷۷) اعترافِ عظمت: مولانا سید نواب صدیق حسن خاں(المتوفی ۱۳۰۷ھ)فرماتے ہیں : ’’انصاف ایں است کہ اگر وجود او در صدر اول وزمانہ ماضی می بود امام الائمہ وتاج المجتہدین شمردہ می شد‘‘ ’’حقیقت یہ ہے کہ ان کا وجود گرامی اگر دورِ اول اور زمانہ ماضی میں ہوتا تو ان کا شمار امام الائمہ اور سربر آوردہ مجتہدین کی جماعت میں کیا جاتا۔‘‘ (اتحاف النبلاء،ص: ۴۳۰) مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۱۴ھ)لکھتے ہیں :
Flag Counter