Maktaba Wahhabi

51 - 295
سیراب کرنے لگیں۔‘‘(شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کی علمی خدمات،ص: ۸۴) مولانا قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۹۶ء)فرماتے ہیں : ’’شاہ ولی اللہ صاحب فکرِ محدثین کے عَلم بردار،مشنِ محدثین کے نقیب و ترجمان،اجتہاد کے دروازے کو ہمیشہ وا رکھنے کے حامی،متمسک بالسنہ،بدعات و منکرات سے نفور،توحید و سنت کے ترجمان،تقلیدِ شخصی سے بیزار،ائمہ اربعہ سے استفادے کے قائل،تحقیق و تفتیش کے داعی،فقہ الحدیث کے نام سے ایک نئے مکتبِ فکر کے موسس اول،فرقہ واریت سے بہت بالا،اتحادِ امت کے قدردان،تعلیماتِ کتاب و سنت کے مبلغ،عصری،حضری،علمی،اعتقادی،فکری،نظری،اساسی اور مذہبی فتنوں کے نقاد،تحقیق و تدقیق،علم و آگہی اور قرآن سنت کے پرچارک تھے۔‘‘ (تحریکِ اہلِ حدیث تاریخ کے آئینے میں،ص: ۲۰۷) شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی خدمتِ حدیث: حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے حدیث کی تحصیل شیخ محمد افضل سیالکوٹی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۱۴۶ھ)اور بعض دوسرے اساتذہ سے کی۔۱۱۴۲ھ میں آپ حجِ بیت اللہ کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے اور مناسک حج ادا کرنے کے بعد مدینۃ النبی پہنچے اور شیخ ابو طاہر بن شیخ ابراہیم الکردی(المتوفی ۱۱۴۵ھ)کے درس میں صحیح بخاری کا درس شروع تھا،اس میں شرکت کے علاوہ بقیہ کتبِ ستہ،موطا امام مالک،مسند دارمی اور کتاب الآثار بشمول چند دیگر کتب احادیث کے اطراف سنا کر سند و اجازت حاصل کی۔شیخ ابو طاہر ممدوح کو آپ پر اس اس قدر فخر تھا کہ اکثر فرمایا کرتے تھے: ’’ولی اللہ لفظ کی سند مجھ سے لیتا ہے اور میں معنی کی سند اس سے حاصل کرتا ہوں۔‘‘(تراجم علماے حدیث،ص: ۱۱) ۱۱۴۵ھ میں شاہ ولی اللہ حرمین شریفین سے واپس ہندوستان تشریف لائے اور
Flag Counter