Maktaba Wahhabi

99 - 295
کہنے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔مولانا کی عظیم الشان کتاب’’تحفۃ الأحوذي’‘ان کے فضل و کمال کی ایک لازوال شہادت موجود ہے۔اہلِ علم اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ مشکلاتِ حدیث کے حل کرنے میں مولانا کا پایہ کتنا بلند ہے۔‘‘ (مقالاتِ مبارک پوری،ص: ۲۸ تا ۳۱،بحوالہ ہفت روزہ’’المنیر’‘اگست ۱۹۵۵ء) محترم ڈاکٹر بہاؤالدین حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’علمِ حدیث میں تبحر حاصل تھا۔روایت اور درایت پرعبور تھا۔طب و حکمت خاندانی ورثہ تھا۔قوتِ حافظہ خدا داد تھی۔زندگی علم و فضل،تقویٰ و طہارت اور زہدو قناعت سے عبارت تھی۔’‘ (تاریخ اہلِ حدیث: ۳/۴۰۶،طبع دہلی) عادات و شمائل: حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کے اوصاف اتنے بے شمار ہیں کہ احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ایک بہترین نمونہ بنایا تھا۔ظاہری محاسن و اوصاف دیکھیں تو بھی اور باطنی خصائل و اوصاف دیکھیں تو بھی یہی کیفیت ہے۔کسی نے سچ کہا ہے: وَلَیْسَ عَلَی اللّٰہِ بِمُسْتَنْکََرٍ أَنْ یَّجْمَعَ الْعَالَمَ فِيْ وَاحِدٖ مہمان نواز اس درجے کے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ ان کی طبیعت ثانیہ اورروحانی غذا ہے۔مہمانوں سے نہایت تواضع اور عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے تھے۔(المقالۃ الحسنیٰ،ص: ۸،مضمون شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ) صاحبِ’’نزہۃ الخواطر’‘مولانا حکیم عبد الحی الحسنی(المتوفی ۱۳۴۱ھ)حضرت محدث مبارک پوری کے عادات و فضائل کے بارے میں فرماتے ہیں :
Flag Counter