رحمت اور سلامتی کی دعائیں کرتے رہیں گے۔[1]
ج: {کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ}:
[ہم اسی طرح احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں]
تفسیر:
{کَذٰلِکَ}:
اس سے آئندہ آنے والے لوگوں میں ذکرِ خیر باقی رکھنے کی طرف اشارہ ہے۔ یہ گذشتہ آیت کریمہ [إِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ] کے مشار إلیہ[2]سے الگ ایک نئی بات ہے، کیونکہ وہاں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام سے سختی اور شدّت دور کرنے کی طرف اشارہ تھا۔[3]
{الْمُحْسِنِیْنَ}:
اس سے مراد حکمِ الٰہی کے لیے مطیع اور فرماں بردار لوگ ہیں۔[4]
درس ۲۳: اللہ تعالیٰ کے فرماں برداروں کے لیے قبولیتِ عامہ:
آئندہ نسلوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکرِ خیر کے باقی رہنے کی علّت اور سبب حکمِ الٰہی کے لیے ان کی طاعت گزاری ہے۔[5]
اس طرح قبولیتِ عامہ پانا صرف انہی کے ساتھ خاص نہیں تھا، بلکہ سنّتِ الٰہیہ
|