Maktaba Wahhabi

78 - 85
’’اَلرَّاسِخِیْنَ فِيْ الْإِیَمَانِ عَلٰی وَجْہِ الْإِیْقَانِ وَالْاِطْمِئْنَانِ۔‘‘[1] [یقین و اطمینان کے اعتبار سے راسخ ایمان والوں میں سے]۔ درس ۲۴: ایمانِ راسخ کا ثمرہ احکامِ الٰہیہ کی تعمیل ہونا: ایمانِ راسخ کے سرچشمہ سے احکامِ الٰہیہ کی بجا آوری پھوٹتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے (محسنین) [احکام الٰہیہ کے لیے مطیع و فرماں بردار لوگوں] میں سے ہونے کے بعد: {اِِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ} [بلاشبہ وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے ایمان دار بندوں میں سے تھا] فرما کر یہ حقیقت واضح فرمائی، کہ ان کی بے مثال طاعت گزاری کے پسِ پشت ان کا یقین و اطمینان کے اعتبار سے راسخ ایمان تھا۔ علامہ شوکانی تحریر کرتے ہیں: ’’ہٰذَا بِیَانٌ بِکَوْنِہٖ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ، وَتَعْلِیْلٌ لَہُ بِأَنَّہُ کَانَ عَبْدًا مُوْمِنًا مُخْلِصًا لَہُ۔‘‘[2] [’’یہ ان کے محسنین سے ہونے اور اس کی علّت کا بیان ہے، کہ بے شک وہ اللہ تعالیٰ کے مخلص ایمان دار بندے تھے[3] ‘‘]۔ ایمان کی پختگی اوامر الٰہیہ کی بجا آوری کو آسان اور سہل کردیتی ہے، جبکہ ایمان کی کمزوری سے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونا بہت بھاری اور بوجھل ہوجاتا ہے۔ اے رب ذوالجلال! اپنی رحمت سے ہم ناکاروں کو پختہ ایمان والوں میں شامل فرما دیجئے۔ إِنَّکَ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۔
Flag Counter