Maktaba Wahhabi

124 - 534
والیان و امراء کے نام عثمان رضی اللہ عنہ کے اس خط میں عادلانہ سیاست، اجتماعیت اور معیشت کے اقدار سیاسی، اجماعی، اقتصادی پر زور دیا گیا بایں طور پر کہ حق داروں کے حقوق کو ادا کیا جائے، اور ان سے حقوق کو وصول کیا جائے، سیاسی تحفظ کی شان کو بلند کیا جائے، ٹیکس کی وصولیابی اور مال میں اضافہ کرنا مقصود نہ بننے پائے۔[1] اس خط کے اندر عثمان رضی اللہ عنہ نے اس انجام سے آگاہ کیا ہے جب والیان و امراء راعی کے بجائے ٹیکس وصول کرنے والے اور مال جمع کرنے والے بن جائیں یعنی یہ سبب ہے مکارم اخلاق کی کمی کا جس کی مثال حیا، امانت اور وفا داری سے دی ہے۔ راعی و رعیت اور امراء و رعایا مضبوط تعلقات کے اہم ترین دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں، اور طرفین میں ایک ہدف پر اتفاق سے اس میں مضبوطی اور استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ ہدف اللہ رب العالمین کی رضا کی تلاش ہے۔ والی کو چاہیے کہ وہ امام وقت کے لیے اطاعت، ولاء اور امانت و وفا جو کچھ پیش کرتا ہے اس سے اس کا مقصود یہی ہدف ہو اور حیاء کی چادر جس کی طرف عثمان رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا ہے سب کو اپنے سایہ میں لیے ہوئے ہو، اور قبیح امور کے ارتکاب اور کسی کے جذبات کو مجروح کرنے اور حرج میں مبتلا کرنے سے مانع ہو۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ اس خط کے اندر اپنے امراء و والیان کو رعایا کے درمیان عدل کو قائم رکھنے کی وصیت فرماتے ہیں، بایں طور کہ وہ ان کے حقوق کو ادا کریں اور ان پر عائد ہونے والے حقوق کو ان سے وصول کریں۔ اس خط میں ایک انتہائی اہم ترین نکتہ کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے وہ یہ کہ ایفائے عہد، دشمن پر فتح و نصرت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے، اور تاریخ نے یہ واضح کیا ہے کہ مسلمانوں کے اداری اور جنگی تفوق و برتری کے سلسلہ میں اس بلند اخلاقی کا زبردست اثر رہا ہے۔[2] ۲۔سپہ سالاروں کے نام عثمان رضی اللہ عنہ کا خط: مختلف خطوط میں سپہ سالاروں کے نام پہلا خط جاری کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’حمد و صلوٰۃ کے بعد! یقینا تم مسلمانوں کے پاسبان اور دفاع کرنے والے ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے تمہارے لیے جو اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں وہ ہم میں سے کسی پر مخفی نہیں بلکہ وہ ہمارے سامنے طے ہوئے تھے۔ خبردار میں یہ نہ سننے پاؤں کہ کسی نے اس میں کوئی تغیر و تبدل کیا ہے، ورنہ اللہ تمہیں بدل دے گا اور تمہاری جگہ دوسروں کو لا کھڑا کرے گا۔ تم دیکھو تمہیں کیا کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز میں غور و فکر کرنے اور اس کو قائم رکھنے کی ذمہ داری میرے سر ڈالی ہے میں اس کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘[3]
Flag Counter