Maktaba Wahhabi

153 - 534
لوگوں نے شور و غوغا مچایا آپ نے ان کو قید کرنے کا فرمان جاری کیا پھر ان سے فرمایا: جانتے ہو یہ جرأت میرے خلاف تمہیں کیوں آئی ہے؟ یہ میرے حلم و بردباری کی وجہ سے ہے، یہی کام عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تو تم نے شور نہیں مچایا، پھر ان لوگوں کے سلسلہ میں عبداللہ بن خالد بن اسید نے گفتگو کی تو آپ نے انہیں رہا کر دیا۔[1] دور اندیشی اور نظام خلافت کو ضائع ہونے سے بچانے کے سلسلہ میں آپ کا یہ کردار بین ثبوت ہے کہ جب آپ نے بلوائیوں کی جانب سے خلافت سے دست برداری کا مطالبہ مسترد کر دیا اور ثابت قدمی اور نظام کے استمرار کی اعلیٰ مثال قائم کی، کیوں کہ اگر آپ ان کے مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے خلافت سے دستبر دار ہو جاتے تو ہمیشہ کے لیے امامت عظمیٰ، شرپسندوں اور فسادیوں کے ہاتھ میں کھیل بن جاتا، انار کی عام ہوتی، اور نظام سلطنت درہم برہم ہو جاتا، اور اس طرح شرپسند اور فسادی لوگ امراء و حکام پر غالب آجاتے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی نگاہیں بڑی گہری تھیں اگر آپ ان کے مطالبہ کو منظور کر لیتے تو آپ کے اس طرز عمل سے یہ طریقہ بد رائج ہو جاتاکہ لوگ جب بھی اپنے امیر کو ناپسند کرتے اس کو معزول کر دیتے، اور اس طرح امت آپسی اختلافات کا شکار ہو کر اپنے دشمن سے غافل ہو جاتی جو اس کے ضعف و زوال کا سبب بنتا، پس آپ نے اپنی جان کی قربانی دے کر امت کی حفاظت فرمائی، اور اس کی سلطنت و عمارت کو شگاف پڑنے سے محفوظ رکھا، اور اس قربانی کے ذریعہ سے اس کے اجتماعی نظام کو مضبوط کیا اور نظام سلطنت کو شر و فساد کے ہاتھ سے محفوظ رکھا، بلاشبہ عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ کارنامہ انتہائی عظیم اور قوی ہے جسے آپ نے تب انجام دیا جب امت کی باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ نے اخف الضررین اور شر میں کم تر کو اختیار کیا اور اس طرح اس قربانی کے ذریعہ سے آپ نے نظام خلافت کو قوت بخشی۔[2] ان شاء اللہ اس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔ صبر: عثمان رضی اللہ عنہ صفت صبر سے متصف تھے، آپ کے ان مواقف میں سے جو اس صفت پر دلالت کرتے ہیں فتنہ کے دور میں آپ کا ثابت قدم رہنا ہے، اس وقت جب کہ آپ اور دیگر مسلمانوں پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے، اس کے مقابلہ میں آپ نے جو موقف اختیار کیا وہ فدائیت و قربانی کی ایسی اعلیٰ مثال ہے جسے ایک فرد جماعتی وجود، امت کی کرامت اور مسلمانوں کے خون کی حفاظت کی راہ میں پیش کر سکتا ہے، اگر آپ کو اپنی جان عزیز ہوتی اور امت کا وجود پیش نظر نہ ہوتا تو آپ کے لیے یہ ممکن تھا کہ آپ اپنی جان کو بچا لیتے، اور اگر آپ خود غرض ہوتے اور صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی اور ایثار و قربانی کے جذبات سے سرشار نہ ہوتے تو بلوائیوں کے مقابلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ابنائے مہاجرین و انصار کو اپنی حفاظت اور دفاع میں لگا دیتے، لیکن آپ نے امت کے اتحاد کو برقرار رکھنا چاہا اس لیے انتہائی صبر و ثبات اور احتساب کے ساتھ اپنی جان کی قربانی پیش کر دی،
Flag Counter