Maktaba Wahhabi

165 - 534
۲۔خراج کی وصولیابی کا رعایا کی حفاظت و خبر گیری میں خلل انداز نہ ہونا: گورنروں کے نام اپنے خط میں عثمان رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت سے آگاہ کر دیا تھا کہ بیت المال کے لیے مال کی وصولی گورنروں کے اولین فریضہ رعایا کی حفاظت و خبر گیری پر اثر انداز نہ ہو۔ اس لیے کہ خراج وغیرہ کی وصولی رعایا کے حقوق میں سے ایک ہے جس کا صدر مملکت مکلف ہے لہٰذا یہ مناسب نہیں کہ یہ باقی تمام فرائض واجبات پر اثر انداز ہو کر اسے ختم کر دے۔[1] فقہائے امت نے طریقہ نبوی اور خلفائے راشدین کے طرز عمل سے امت کی حمایت و حفاظت سے متعلق خلیفہ کے فرائض مستنبط کیے ہیں جو درج ذیل ہیں: علامہ ماوردی فرماتے ہیں عام پبلک مسائل جو خلیفہ پر لازم ہیں دس ہیں: ۱۔ دین کو اس کے ثابت اصولوں اور سلف صالحین کے اجماع کے مطابق محفوظ رکھنا۔ ۲۔ جھگڑنے والوں کے درمیان احکام شریعت کو نافذ کرنا، ان کے جھگڑے کو چکانا تاکہ انصاف عام ہو، تاکہ ظالم زیادتی نہ کرے اور مظلوم کمزور نہ پڑے۔ ۳۔ بچوں اور خواتین کی حمایت و حفاظت تاکہ لوگ جان و مال کی فکر کیے بغیر پورے امن و امان کے ساتھ طلب معاش میں لگ سکیں اور سفر زندگی جاری رکھ سکیں۔ ۴۔ شرعی حدود کا نفاذ تاکہ ایک طرف اللہ کے محارم کا ارتکاب نہ کیا جائے اور دوسری طرف بندوں کے حقوق کو تحفظ ملے۔ ۵۔ اسلامی حدود کی مکمل حفاظت اور اس کے لیے صحیح فوجی ساز و سامان اور دفاعی قوت فراہم کرنا تاکہ دشمن موقع پا کر گھس نہ آئے اور پھر کسی مسلمان یا معاہد کا خون بہائے یا کسی حرمت کو پامال کرے۔ ۶۔ دعوت پیش کرنے کے بعد معاندین اسلام کے خلاف اعلان جہاد کرنا یہاں تک کہ اسلام قبول کر لیں یا جزیہ ادا کرنے پر تیار ہو جائیں تاکہ اللہ کا دین اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے ۷۔ بغیر کسی ظلم و زیادتی کے مال فے اور صدقات کو وصول کرنا۔ ۸۔ بیت المال سے مستحقات اور عطیات کو بغیر اسراف و بخالت کے مقرر کرنا اور بغیر کسی تقدیم و تاخیر کے وقت مقررہ پر ادا کرنا۔ ۹۔ با صلاحیت، امانت دار اور خیر خواہ افراد کو جمع کرنا اور ان کے ذمہ اعمال و اموال سپرد کرنا تاکہ با صلاحیت افراد کے ذریعہ سے اعمال صحیح طریقہ پر انجام پائیں اور امانت دار افراد کے ذریعہ سے مال محفوظ رہے۔ ۱۰۔ خود امور و مسائل کی نگرانی کرے اور حالات کا جائزہ لے تاکہ امت کی سیاست اور ملت کی حفاظت میں
Flag Counter