Maktaba Wahhabi

167 - 534
زائد مال کو عطیات کے نظام کے تحت مسلمانوں کے مابین تقسیم کرنا، یا براہ راست نہ ہو گا جیسے خدمات عامہ (پبلک سروسز) جو حکومت اپنی رعایا کے لیے پیش کرتی ہے، اس پر بیت المال سے خرچ کیا جائے گا۔ دونوں طرح کے عطیات میں لازم ہے کہ حق کو قائم رکھا جائے براہ راست عطیات ظلم و زیادتی سے پاک ہوں۔ بایں طور کہ مقررہ اصولوں کی مخالفت نہ کی جائے کہ بلا سبب اور کسی وجہ جواز کے بغیر کسی کو فائدہ اور کسی کو نقصان پہنچایا جائے، اور یہ جائز نہیں کہ عطیات کو ان کے مقررہ وقت سے مؤخر کیا جائے خواہ یہ تاخیر کارروائی کی پیچیدگی کی وجہ سے ہو یا ان رکاوٹوں کی وجہ سے جن کی وجہ سے وہ حضرات جو حق تلفی کا شکار ہیں ذمہ داروں تک نہیں پہنچ پاتے کہ وہ عطیات کی تاخیر یا قلت یا عدم وصول کے سلسلہ میں بات کر سکیں۔ اور اسی طرح خدمات عامہ (پبلک سروسز) کی شکل میں حکومت عوام کو جو عطیات پیش کرتی ہے اس میں یہ جائز نہیں کہ فرد معین کی منفعت پیش نظر ہو بلکہ ضروری ہے کہ پوری امت کی منفعت پیش نظر رہے۔[1] ۵۔ ذمیوں پر ظلم نہ کرنا، ان سے بیت المال کا حق وصول کرنا اور ان کے حقوق کو ادا کرنا: اہل کتاب سے جزیہ وصول کرتے وقت ان پر ظلم کرنا جائز نہیں کیوں کہ اہل کتاب ان ذمیوں میں سے ہیں جو اسلامی سلطنت میں اقامت اختیار کرتے ہیں اور وہ اس کی حفاظت و امان میں ہوتے ہیں جب تک جزیہ ادا کرتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت فرمائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کو اہل ذمہ سے جزیہ وصول کرنے پر مقرر فرمایا جب وہ آپ کے پاس سے جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا: ((الا من ظلم معاہدا او کلفہ فوق طاقتہ او انتقصہ او اخذ منہ شیئا بغیر طیب نفسہ فأنا حجیجہ یوم القیامۃ۔))[2] ’’خبردار جو کسی معاہد پر ظلم کرے یا اس کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف کرے یا اس کی تنقیص کرے یا اس کی رضا کے بغیر کوئی چیز اس سے لے تو قیامت کے دن میں اس کے خلاف دعوے دار ہوں گا۔‘‘ اس کی بنیاد پر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔ فرمایا: ’’میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ اہل ذمہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، ان کے عہد کو پورا کرے، اور ان کے دفاع میں قتال کرے اور ان کو ان کی طاقت سے
Flag Counter