Maktaba Wahhabi

170 - 534
إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا (58) (النساء: ۵۸) ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو یقینا وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے دیکھتا ہے۔‘‘ ارشاد الٰہی ہے: وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ (8) (المومنون: ۸) ’’جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ نے محصلین خراج سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ امانت کی صفت سے متصف ہوں، اور جو بھی مالی امور سے منسلک ہوں ان سب کے لیے یہ صفت انتہائی لازم ہے، اگر ان کے اندر یہ صفت نہ پائی گئی تو وہ بیت المال کے حقوق پر ظلم ڈھائیں گے اور مال فراہم کرنے والوں پر ظلم ڈھائیں گے اور مال فراہم کرنے والوں اور بیت المال کے درمیان تعلقات خراب ہوں گے۔ قرآن کریم اور احادیث نبویہ امانت کو لازم پکڑنے پر ابھارتے ہیں۔ خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی طرح محصلین خراج سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ وفا کی صفت سے متصف ہوں اور آپ کے خطوط میں مطلق وفا کی تاکید کی گئی، جو بیت المال اور مال فراہم کرنے والے دونوں کے ساتھ وفا کو شامل ہے بایں طور پر کہ بیت المال کا حق رعایا سے پورا پورا وصول کیا جائے اور مال فراہم کرنے والوں پر مطلوبہ مال کی تعیین میں حد سے تجاوز کر کے ان پر ظلم نہ کیا جائے۔ اور اسی طرح اس وفا کا تعلق اہل ذمہ سے بھی ہے کہ ان کے ساتھ نرمی اور حسن معاملہ کیا جائے اور جزیہ و خراج سے متعلق جو صلح کی شرائط طے پائی ہیں بلا کم و کاست نافذ کیا جائے۔ [1] ۸۔ خوش حالی کا اثر امت کی روش پر: عثمان رضی اللہ عنہ نے عوام کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ ان کی رہنمائی فرمائی اور انہیں متنبہ کیا کہ کہیں دنیا اور دنیاوی ناز و نعم اور لذتیں انہیں اپنی طرف گھسیٹ نہ لے جائیں۔ آپ کو اس بات کا شدید خوف تھا کہ جب امت میں تین چیزیں پیدا ہو جائیں تو وہ ابتداع کا شکار ہو جائے گی: خوش حالی، قیدی خواتین کی اولاد کی بلوغت، عجمیوں کا قرآن پڑھنا۔[2]
Flag Counter