Maktaba Wahhabi

175 - 534
خلافت میں بہت زیادہ فتوحات ہوئیں جس کی وجہ سے بہت زیادہ مال غنیمت بیت المال کو حاصل ہوا اور اسی میں سے خمس بھی تھا۔ اسی طرح بیت المال کو ان اہل کتاب کی طرف سے جزیہ کا مال بھی خوب حاصل ہوا جنھوں نے اپنے دین پر باقی رہنے کو ترجیح دی اور جنگ کرنے سے باز رہے اس طرح بیت المال اور اسلامی فتوحات کے مابین گہرا تعلق رہا۔ عہد عثمانی میں اسلامی فتوحات کے لیے جان و مال کی قربانی دیتے ہی تھے، اس کے ساتھ ساتھ بیت المال نے بھی مذکورہ فتوحات کے لیے مال فراہم کیا خواہ افواج کی تنخواہ کی شکل میں یا اسلحہ اور سامان جنگ کی خریداری کی شکل میں اور جب فتوحات حاصل ہوئیں تو ان اہل کتاب پر جو مسلمان نہیں ہوئے جزیہ عائد کیا گیا اور ان زمینوں پر خراج عائد کیا گیا جو کفار سے جنگ کر کے حاصل کی گئیں اور اسی طرح جو لوگ مسلمان ہوئے انہوں نے زکوٰۃ کی شرائط کی تکمیل کی صورت میں زکوٰۃ ادا کی جو ارکان اسلام میں سے ہے، اس کی ادائیگی کے بغیر اسلام ہی نا مکمل ہوتا ہے۔ ان سب سے اسلامی سلطنت کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے مال غنیمت کو حلال کیا ہے جو پانچ حصوں میں مساوی تقسیم کیا جاتا ہے، چار حصے مجاہدین کے درمیان تقسیم کیے جاتے ہیں اور پانچواں حصہ بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔[1] درج ذیل بعض مسائل سے عہد عثمانی میں مال غنیمت کے خمس سے متعلق عام مالی سیاست کے نفاذ کا اظہار ہوتا ہے: ۱۔عہد عثمانی میں مال غنیمت سے بچوں کا حصہ نہیں مقرر کیا گیا: تمیم بن مہری کا بیان ہے کہ میں دوسری مرتبہ فتح اسکندریہ میں شریک تھا لیکن مجھے مال غنیمت میں حصہ نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے قریب تھا کہ میری قوم اور قریش کے درمیان اختلاف رونما ہو جائے، لیکن بعض لوگوں نے کہا اس سلسلہ میں بصرہ غفاری اور عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہما سے دریافت کر لیا جائے ،دونوں صحابی رسول ہیں، جب ان دونوں سے اس سلسلہ میں دریافت کیا گیا تو ان دونوں نے کہا: اگر زیر ناف بال آگئے ہیں تو پھر حصہ دیا جائے، چنانچہ بعض لوگوں نے میرا معائنہ کیا تو زیر ناف بال آچکے تھے لہٰذا مجھے مال غنیمت میں حصہ دیا گیا۔[2] اس کا معنی یہ ہوا کہ بچے کا مال غنیمت میں حصہ نہیں ہے اور اسی طرح عورت کا بھی حصہ نہیں ہے، لیکن چوںکہ انہوں نے جنگ میں مسلمانوں سے تعاون کیا ہے اس لیے کچھ مال دیا جائے گا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نافذ العمل تھا۔[3]
Flag Counter