Maktaba Wahhabi

178 - 534
5/1 حصہ = ۶ ملین دینار۔ اس طرح مال غنیمت کی مجموعی رقم۳۰ ملین دینار ہوئی۔[1] ۴۔ مال غنیمت کے خمس کا مصالح عامہ پر خرچ: مال غنیمت کا خمس، نص قرآنی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اقرباء، ایتام، مساکین اور مسافروں پر خرچ ہوتا رہا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرابت داروں کا حصہ بیت المال میں جمع ہونے لگا تاکہ اس سے اسلحہ اور جنگی ساز و سامان فراہم کیا جائے، چنانچہ خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرابت داروں کے حصہ کو بیت المال میں جمع کر کے اس کو جنگی ساز و سامان اور اسلحہ کی فراہمی پر خوب خرچ کیا، کیوں کہ آپ کے دور حکومت میں بکثرت فتوحات کا سلسلہ جاری رہا، جس کے پیش نظر اسلحہ اور گھوڑے اور دیگر جنگی ساز و سامان کی شدید ضرورت تھی۔[2] ۵۔ عہد عثمانی میں اسلامی فتوحات کے لیے مال کی فراہمی میں مالی سیاست کی کامیابی: عثمان رضی اللہ عنہ کو جن چیلنجوں کا سامنا تھا ان میں سے بعض مفتوحہ علاقوں کی بغاوت تھی، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے ان بغاوتوں پر قابو پا لیا اور انہیں دوبارہ اسلامی سلطنت کی ما تحتی قبول کرنے پر مجبور کیا۔ جدید فتوحات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان فتوحات سے متعلق مالی سیاست کی تنفیذ یہ بتا رہی ہے کہ عہد عثمانی میں عام مالی سیاست نے اپنا مطلوب کردار ادا کیا ہے، خواہ اس کا تعلق ان فتوحات کے لیے مال کی فراہمی سے ہو یا بیت المال کو حاصل شدہ کثیر دولت سے ہو جو مال غنیمت سے، یا مفتوحہ علاقوں کے لوگوں میں سے جنھوں نے اسلام قبول کیا ان کی زکوٰۃ سے یا جو اہل کتاب اپنے دین پر باقی رہے ان سے جزیہ اور خراج سے حاصل ہوئی۔[3] ۶۔ عہدعثمانی میں جزیہ سے حاصل شدہ آمدنی کی چند مثالیں: ا۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ جو کوفہ کے والی تھے آذربیجان پر چڑھائی کی اور وہاں کے لوگوں سے آٹھ لاکھ درہم پر مصالحت کی جس کو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت روک لیا تھا، چنانچہ ولید رضی اللہ عنہ نے ان پر فوجی چڑھائی کی، انہوں نے اطاعت قبول کی اور انہوں نے ان سے مال کو حاصل کیا۔[4] ب۔ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو افریقہ کی طرف روانہ کیا تو انہوں نے راستہ میں جرجیر سے مصالحت کر کے جو رقم حاصل کی اس کی مقدار دو ملین پانچ لاکھ بیس ہزار دینار تھی۔[5] ج۔ قبرص کی صلح سات ہزار دینار جزیہ کی ادائیگی پر ہوئی جو وہ مسلمانوں کو ادا کرتے رہیں گے۔[6] د۔ سعید بن صالح نے جرجان والوں سے مصالحت کی وہ کبھی ایک لاکھ کبھی دو لاکھ اور کبھی تین لاکھ ادا
Flag Counter