Maktaba Wahhabi

179 - 534
کرتے تھے۔[1] ھ۔ عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے نیساپور پر قبضہ کیا اور سرخس کی طرف رخ کیا تو مرو کے باشندوں نے صلح کا مطالبہ کیا بنا بریں انہوں نے ابن حاتم باہلی کو ان کی طرف روانہ کیا انہوں نے مرو کے حاکم سے دو ملین پر مصالحت کی اور ایک بیان کے مطابق ساٹھ ہزار درہم پر مصالحت کی۔[2] و۔ احنف بن قیس بلخ کی طرف روانہ ہوئے اور ان کا محاصرہ کر لیا، تو انہوں نے چار لاکھ پر مصالحت کی پیش کش کی، احنف نے اسے قبول کر لیا اور اپنے چچا زاد بھائی اسید بن متشمش کو ان سے وصول کرنے کے لیے مقرر کیا۔[3] ۴۔ عثمان رضی اللہ عنہ اہل نجران پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان نامے کونافذ کر رہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے کچھ شرائط پر معاملہ طے کیا تھا اور انہوں نے ان شرائط کو قبول کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں ان کے لیے فرمان نامہ تحریر کرایا تھا جس میں ان شرائط کی تفصیل تھی، اس میں سے جزیہ کی ادائیگی اور اس کی مقدار کی تعیین بھی تھی۔ پھر یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے ان شرائط سے متعلق فرمان نامہ ان کو تحریر کر دیا پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے انہیں نجران یمن سے جلا وطن کر کے نجران عراق میں آباد کر دیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے لیے فرمان نامہ تحریر کر دیا۔[4] جب عمر رضی اللہ عنہ وفات پا گئے اور مسند خلافت پر عثمان رضی اللہ عنہ جلوہ افروز ہوئے تو یہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اپنے عامل ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے نام یہ فرمان نامہ تحریر فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم ’’عبداللہ عثمان بن عفان امیر المومنین کی طرف سے ولید بن عقبہ کے نام۔ سلام اللہ علیک، یقینا میں اللہ عزوجل کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اما بعد! اہل نجران جو عراق میں آباد ہیں ان کے پادری اور ذمہ دار افراد میرے پاس حاضر ہوئے اور شکایت کی اور مجھے عمر رضی اللہ عنہ کی شرط کو دکھایا۔ مسلمانوں سے جو انہیں تکلیف پہنچی ہے اس کا مجھے علم
Flag Counter