Maktaba Wahhabi

185 - 534
مقابلہ کے لیے تیار کرنا چاہا تھا۔ اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے انطاکیہ اور قالیقلا کی کچھ زمینیں جاگیر پر دی گئیں۔[1] مروان بن حکم سے متعلق یہ جو مشہور ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں فدک کو بطور جاگیر عطا کر دیا تھا یہ صحیح طرق سے ثابت نہیں ہے اور یہ بھی اس سلسلہ میں کہا گیا کہ فدک کو معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے مروان کو دیا تھا۔[2] اراضی کو بطور جاگیر لوگوں کو عطا کرنے کی عثمانی سیاست بیت المال کی آمدنی میں اضافہ کا سبب ثابت ہوئی کیوں کہ سبھی لوگ شروط زکوٰۃ کے مکمل ہونے کی صورت میں اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرنے لگے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ منصوبہ کامیاب رہا۔ عراق میں حکومت کے خاص املاک کی آمدنی میں زیادتی اس کی واضح دلیل ہے چنانچہ آپ کے دور حکومت میں یہ آمدنی50،000،000 درہم پہنچ گئی جب کہ دور فاروقی میں صرف900،000 درہم تھی۔[3] ۸۔ اراضی کو حکومتی چراگاہ میں تحویل کرنے کی عثمانی سیاست یہ وہ اراضی تھی جو حکومت کے اونٹوں اور گھوڑوں کے چرنے کے لیے خاص کر دی گئی تھی۔ وادی نقیع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے لیے خاص کر دیا تھا۔[4] اس کا طول اسی (۸۰) کلو میٹر تھا جو مدینہ کے جنوب میں چالیس کلو میٹر پر شروع ہوتا تھا۔[5]خلافت صدیقی اور فاروقی میں اس کی یہی حالت باقی رہی، اور خلافت فاروقی میں اس طرح کی چراگاہوں میں کافی اضافہ ہوا کیوں کہ جہاد کے لیے حکومت کے گھوڑوں اور اونٹوں میں اضافہ ہوا چنانچہ آپ نے ’’ربذہ‘‘ کو زکوٰۃ کے جانوروں کے لیے خاص کر دیا اور وہاں اپنے غلام (ھنی) کو مقرر کیا اور انہیں حکم دیا کہ جن کے پاس معمولی اونٹ ہیں انہیں یہاں چرانے دینا البتہ مال داروں کو یہ موقع نہ دینا۔ اسی طرح آپ نے دیار بنی ثعلبہ میں ایک زمین کو چراگاہ کے لیے خاص کر دیا باوجودیکہ ان لوگوں نے اس پر بڑا احتجاج کیا، آپ نے ان کے جواب میں فرمایا: ’’ملک اللہ کا ہے اور اللہ ہی کے مال کے لیے اس کی حفاظت کی جا رہی ہے۔‘‘[6] عہد عثمانی میں اسلامی سلطنت کی وسعت اور فتوحات میں اضافہ کے سبب عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے پیش رو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے منہج کو اختیار کیا۔ آپ نے چراگاہوں کی تخصیص مسلمانوں کے صدقات کی حفاظت و حمایت کے لیے کی، چنانچہ جب چرنے والے جانوروں میں اضافہ ہوا تو چراگاہوں میں بھی اضافہ کیا اور جو چیز ضرورت کے تحت جائز ہو تو ضرورت میں اضافہ کی صورت میں اس میں اضافہ بھی جائز ہو گا۔[7]
Flag Counter