Maktaba Wahhabi

196 - 534
(۲) دارالقضاء اور بعض فقہی اجتہادات ذوالنورین کا عہد مبارک دور راشدی کا امتداد تصور کیا جاتا ہے جس کی اہمیت دور نبوی سے متصل اور قریب ہونے کی وجہ سے نمایاں ہے۔ دور راشدی عام طور سے اور شعبہ قضاء خاص طور سے دور نبوی کے قضاء کا امتداد تھا جس کے اندر دور نبوی میں تمام ثابت شدہ احکام کی مکمل حفاظت اور نصوص و معانی کی مکمل تنفیذ و تطبیق کی گئی تھی۔ دور راشدی قضاء سے متعلق دو بنیادی امور میں نمایاں ہے: ٭ قضاء سے متعلق عہد نبوی کے نصوص کی مکمل محافظت اور اس سلسلہ میں ثابت شدہ احکام کی تنفیذ اور اس کا التزام۔ ٭ اسلامی سلطنت کے ستونوں کو مضبوط کرنے اور جدید متنوع واقعات کے مقابلہ کے لیے جدید قضائی قواعد و ضوابط وضع کرنا۔[1] اللہ کی توفیق پھر اپنی نادر عبقریت کے ذریعہ سے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسلامی سلطنت کے شعبہ قضاء میں تطور پیدا کیا اور اس کے لیے قواعد و ضوابط وجود میں آئے۔ اس سے خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ نے قضاۃ، ان کی تنخواہوں اور ان کے قضائی اختیارات کی تعیین، قاضی کی صفات، اس کے واجبات، قضائی احکام کے مصادر اور دلائل کی معرفت میں استفادہ کیا۔ عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے قضائی ریکارڈ سے عہد عثمانی کے قضاۃ نے استفادہ کیا۔ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے زمام خلافت سنبھالی اس وقت مدینہ کے قضاء پر علی بن ابی طالب، زید بن ثابت اور سائب بن یزید رضی اللہ عنہم مقرر تھے۔ بعض محققین کا بیان ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ان قضاۃ میں سے کسی کو کسی قضیہ میں بذات خود فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا تھا جیسا کہ عہد فاروقی میں تھا بلکہ عثمان رضی اللہ عنہ مقدمات کو خود دیکھتے اور ان حضرات اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرتے اگر ان کی آراء آپ کی رائے کے موافق ہوتیں تو فیصلہ صادر کر دیتے اور ا گر ان کی رائے آپ کی رائے کے موافق نہ ہوتی تو اس سلسلہ میں مزید غور و فکر اور تحقیق کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے ان تینوں قاضیوں کو عہدئہ قضاء سے برطرف کر دیا تھا اور انہیں بحیثیت مشیر باقی رکھا تھا اور اسی طرح دوسروں سے بھی مشورہ لیتے تھے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کوئی ایسی صریح نص وارد نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں
Flag Counter