Maktaba Wahhabi

199 - 534
۴۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (بصرہ، گورنری کے ساتھ) ۵۔ شریح رحمہ اللہ (کوفہ) ۶۔ یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ (یمن) ۷۔ ثمامہ رضی اللہ عنہ (صنعا) ۸۔ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ (مصر) [1] قصاص، جنایات، حدود، تعزیرات، عبادات اور معاملات سے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ نے فقہی احکامات چھوڑے ہیں جن کا اسلامی فقہی مدارس پر گہرا اثر رہا ہے یہاں بعض وہ احکام پیش کیے جاتے ہیں جنھیں عثمان رضی اللہ عنہ نے صادر کیا یا ان کا فتویٰ دیا ہے: ۱۔ قصاص، حدود اور تعزیر سے متعلق ۱۔پہلا مقدمہ جو عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا قتل کا مقدمہ تھا: سب سے پہلا مقدمہ جس کا عثمان رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مقدمہ تھا۔ ہوا یوں کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے قاتل ابو لولو کی بیٹی کو قتل کر دیا اور جفینہ نامی ایک نصرانی پر تلوار سے وار کیا اور اس کا قصہ تمام کر دیا اور اسی طرح ہرمزان کو بھی قتل کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں نے ابو لولو کو عمر رضی اللہ عنہ کے قتل پر ابھارا تھا۔ واللہ اعلم۔[2] عمر رضی اللہ عنہ نے عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو جیل میں بند کر دینے کا حکم جاری کیا تھا تاکہ آپ کے بعد آنے والا خلیفہ ان کے سلسلہ میں اپنا فیصلہ صادر کرے۔ جب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے تو سب سے پہلا مقدمہ آپ کے سامنے عبیداللہ رضی اللہ عنہ کا مقدمہ تھا۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا ان کو چھوڑ دینا عدل نہیں انہیں قتل کر دینا چاہیے۔ بعض مہاجرین نے کہا: یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کل باپ کا قتل ہوا اور آج بیٹا قتل کیا جائے؟ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس قضیہ سے بری رکھا ہے یہ آپ کے عہد خلافت میں پیش نہیں آیا ہے اس کو چھوڑیے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے ان مقتولین کی دیت اپنے مال سے ادا کی کیوں کہ ان کا معاملہ آپ کے حوالے تھا جب کہ بیت المال کے علاوہ ان کا کوئی وارث نہ تھا۔ امام وقت اس سلسلہ میں اصلح کا خیال کرتا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو رہا کر دیا۔[3] اور طبری کی ایک روایت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہرمزان کے بیٹے قماذبان نے عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو معاف کر دیا تھا۔ ابو منصور کی روایت ہے کہ میں نے قماذبان کو اس کے والد سے متعلق بیان کرتے ہوئے سنا کہ عجمی مدینہ میں
Flag Counter