Maktaba Wahhabi

211 - 534
تو مقصود حاصل نہ ہو گا اور جمعہ کے وقت میں تاخیر لازم آئے گی اور یہ خلاف سنت ہے اور اسی صورت میں ان بدعات سے نجات مل سکتی ہے جسے لوگوں نے تذکیر اور ذکر وغیرہ کی شکل میں ایجاد کر رکھا ہے جس کی طرف حافظ ابن حجر نے اپنے کلام میں اشارہ کیا ہے اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ سلف صالحین کی اتباع ہی بہتر ہے۔[1] ۳۔ اسلام لانے کے بعد یومیہ غسل: عثمان رضی اللہ عنہ نے جب سے اسلام قبول کیا اپنا معمول بنا لیا تھا کہ آپ یومیہ غسل فرماتے تھے۔[2]ایک دن آپ نے لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی بعد میں دیکھا کہ آپ کے کپڑوں میں احتلام کے آثار ہیں، فرمایا: واللہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں مجھے جنابت لا حق ہوتی ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا پھر آپ نے نماز دہرائی [3]لیکن مقتدیوں نے نماز نہیں دہرائی۔[4] ۴۔ سجدۂ تلاوت: عثمان رضی اللہ عنہ کا موقف سجدہ تلاوت سے متعلق یہ ہے کہ یہ قرآن کی تلاوت کرنے والے اور قرآن سننے والے دونوں پر واجب ہے لیکن جو بلا قصد و ارادہ سنتا ہے اس پر سجدہ تلاوت نہیں۔ آپ کا گزر ایک قصہ گو کے پاس سے ہوا اس نے آیت سجدہ کی تلاوت کی تاکہ اس کے ساتھ عثمان رضی اللہ عنہ سجدہ کریں تو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سجدئہ تلاوت اس پر ہے جو کان لگا کر سنے پھر آپ چلے گئے اور سجدہ نہیں کیا۔[5] آپ کا قول ہے: ’’جو کان لگا کر سنے‘‘ سے مقصود ’’جو قصداً سنے‘‘ نیز آپ نے فرمایا: یقینا سجدئہ تلاوت اس پر ہے جو اس کے لیے بیٹھے۔[6] اور عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حائضہ عورت جب آیت سجدہ سنے تو اس کے لیے اشارہ کرے اور چھوڑے نہیں لیکن نماز کی طرح سجدہ نہ کرے۔[7] ۵۔ ساحلی علاقوں میں نماز جمعہ: امام لیث بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر شہر اور بستی جس میں جماعت ہو سکتی ہے وہاں جمعہ قائم کیا جائے گا کیوں کہ عہد فاروقی اور عثمانی میں ان کے حکم سے مصر اور اس کے ساحلی علاقہ کے لوگ جمعہ قائم کرتے تھے اور ان میں صحابہ بھی موجود ہوتے تھے۔[8]
Flag Counter