Maktaba Wahhabi

216 - 534
۱۹۔ باپ کا عطیہ اولاد کے لیے: جب باپ اپنی اولاد کو کوئی عطیہ دے تو اس کو چاہیے کہ اس پر گواہ بنا لے۔ جب گواہ بنا لیا تو یہ قبضہ تصور کیا جائے گا اور اس کے بعد اگر وہ چیز باپ کے پاس رہے تو کوئی بات نہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ قول مروی ہے: جس نے اپنے چھوٹے بچے کو عطیہ دیا جو قبضہ نہیں کر سکتا لیکن باپ نے اس کا اعلان کر دیا اور اس پر گواہ رکھ لیا تو یہ جائز ہے اگرچہ باپ ہی کے قبضہ میں رہے۔[1] لیکن اگر گواہ نہیں بنایا اور نہ بچے کے حوالہ کیا تو یہ عطیہ نافذ نہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اپنی اولاد کو عطیہ دیتے ہیں پھر اگر اولاد کا انتقال ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تو میرا مال ہے اور میرے قبضہ میں ہے اور اگر خود اس کا انتقال ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میں نے اس کو ہبہ کر دیا ہے، ہبہ و عطیہ وہی ثابت ہو گا جو بچے کے قبضہ میں ہو۔[2] ۲۰۔ بے وقوف کے تصرف پر حکم امتناعی: عثمان رضی اللہ عنہ بے وقوف کے تصرف پر حکم امتناعی کے حق میں تھے چنانچہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے ساٹھ ہزار دینار میں ایک زمین خریدی، اس کی اطلاع علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو پہنچی، آپ کے خیال میں یہ زمین اتنی قیمت کے لائق نہ تھی اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اس میں صریح دھوکا کھایا ہے، بلکہ بے وقوفوں کا سا تصرف کیا ہے۔ آپ نے یہ ارادہ ظاہر فرمایا کہ وہ امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں گے اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کے تصرف پر حکم امتناعی نافذ کرا دیں گے۔جب عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کو اس کی خبرملی تو وہ جلدی سے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جو ماہر تاجر تھے اور عرض کیا میں نے اتنے میں یہ زمین خریدی ہے اور علی رضی اللہ عنہ کا ارادہ ہے کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر مجھ پر حکم امتناعی نافذ کرا دیں گے۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس بیع میں تمہارا شریک ہوں۔ علی رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: میرے بھتیجے نے ایک بنجر زمین ساٹھ ہزار میں خرید لی ہے مجھے اگر وہ جوتے کے عوض ملے تو بھی نہ لوں لہٰذا آپ اس پر حکم امتناعی نافذ کر دیں اور زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس کا اس بیع میں شریک ہوں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بھلا میں ایسے شخص کی بیع پر حکم امتناعی کیسے لگاؤں جس کے شریک زبیر ہوں۔[3] یعنی میں عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما پر ایسے تصرف کی وجہ سے بے وقوفی اور سفاہت کا حکم نہیں لگا سکتا جس تصرف میں زبیر شریک ہوں کیوں کہ زبیر رضی اللہ عنہ انتہائی ماہر تاجر ہیں ان سے ممکن نہیں کہ وہ بے وقوفی اور سفاہت کے تجارتی تصرف میں شریک ہوں۔[4]
Flag Counter