Maktaba Wahhabi

238 - 534
احنف رضی اللہ عنہ فتح یاب ہوئے تو فوراً دو آدمیوں کو اس کے پاس روانہ کیا اور ان سے کہا جب تک طے شدہ رقم اس سے وصول نہ کر لیں اس سے بات نہ کریں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ مسلمان فتح یاب ہو چکے ہیں ورنہ وہ ایسا نہ کرتے اس لیے فوراً ادا کر دی۔[1] احنف نے اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو شہسواروں کے دستہ کے ساتھ ’’جوزجان‘‘ روانہ کیا کیوں کہ جس لشکر کو احنف رضی اللہ عنہ نے شکست دی تھی ان کے کچھ لوگ وہاں باقی رہ گئے تھے، اقرع رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا اور دشمن کو کچل کر رکھ دیا، ان کے صرف دو شہسوار شہید ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی اور دشمن کو شکست فاش ہوئی۔ کُثَیِّر نَہْشَلی نے اسی مناسبت سے کہا ہے: سقی مزن السحاب اذا استہلب مصارع فتیۃ بالجوزجان ’’بدلیوں کی موسلا دھار بارش ہوئی تو اس نے جوزجان کے مقتولین جوانوں کو سیراب کیا۔‘‘ الی القصرین من رستاق خوط اقادہم ہناک الاقرعان ’’رستاق خوط سے قصرین تک اقرع کی فوج نے ان کو دوڑایا۔‘‘ ۳۲ھ میں اہل بلخ کے ساتھ احنف کی مصالحت: احنف مرو سے بلخ پہنچے اور ان کا محاصرہ کر لیا، ان لوگوں نے آپ سے چار ہزار پر مصالحت کر لی۔ آپ نے اسے پسند کیا اور اپنے بھتیجے اسید بن متشمش کو مقرر کیا تاکہ وہ ان سے یہ وصول کر لیں پھر حازم کی طرف آگے بڑھے اور ٹھہرے رہے یہاں تک کہ تیز سردی پڑنے لگی، ساتھیوں سے فرمایا: کیا چاہتے ہو؟ لوگوں نے کہا عمرو بن معدی کرب کا شعر ہے: اذا لم تستطع امرا فدعہ وجاوزہ الی ما تستطیع ’’جب کسی چیز کی استطاعت نہ ہو تو اسے ترک کر دو، اور اس چیز کی طرف آگے بڑھو جس کو کر سکتے ہو۔‘‘ چنانچہ احنفؒ نے لوگوں کو کوچ کرنے کا حکم دے دیا اور بلخ لوٹ آئے، اور آپ کے چچا زاد بھائی اسید نے ان سے وہ رقم وصول کی جس پر معاہدہ ہوا تھا۔ اتفاق سے جس دن وہ ان سے رقم وصول کرنے گئے وہ ان کے جشن کا دن تھا، چنانچہ ان لوگوں نے انہیں ہدیہ میں سونے اور چاندی کے برتن، دینار و درہم اور سامان و کپڑے پیش کیے۔ اسید نے ان سے پوچھا: کیا مصالحت کے وقت یہ طے ہوا تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں، لیکن آج
Flag Counter