Maktaba Wahhabi

242 - 534
آپ کے بعض اوصاف جو آپ کے ساتھیوں میں اثر انداز ہوئے حلم و بردباری: احنف رحمہ اللہ انتہائی حلیم الطبع تھے آپ کے حلم و بردباری کی مثال دی جاتی تھی۔ آپ سے حلم و بردباری سے متعلق پوچھا گیا کہ وہ کیا ہے تو آپ نے فرمایا: صبر کے ساتھ ذلت۔ آپ کے حلم پر جب لوگ تعجب کرتے اور پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تو فرماتے: جو آپ لوگ محسوس کر رہے ہیں میں وہ محسوس نہیں کرتا لیکن میں صابر ہوں، میں نے حلم و بردباری قیس بن عاصم منقری سے سیکھی ہے۔[1] کیوں کہ ان کے ایک بیٹے کو ان کے بھتیجے نے قتل کر دیا۔ قاتل کو باندھ کر ان کے پاس حاضر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: نوجوان کو تم نے خوفزدہ کر دیا ہے۔ پھر اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم نے بہت برا کیا، اپنی تعداد کم کر دی، اپنے بازو کمزور کر لیے، اپنے دشمن کو خوش کر دیا، اور اپنی قوم کو ناراض کر لیا۔ پھر لوگوں کو حکم دیا کہ اس کو چھوڑ دو اور مقتول کی والدہ کو دیت پہنچا دو۔ چنانچہ قاتل کو چھوڑ دیا گیا اور وہ چلا گیا۔ قیس اپنی حالت پر بیٹھے رہے آپ کے چہرے پر ذرا بھی تغیر نہیں آیا۔[2] ایک شخص نے احنف رحمہ اللہ سے عرض کیا: اے ابو بحر! مجھے بردباری سکھا دیجیے؟ فرمایا: بھتیجے! بردباری ذلت کا نام ہے، کیا تم اس پر صبر کر سکتے ہو؟ آپ کا قول ہے: میں بردبار نہیں ہوں لیکن بردبار بننے کی کوشش کرتا ہوں۔[3] آپ کی بردباری کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص نے آپ کو گالی دی آپ خاموش رہے، اس نے پھر گالی دی آپ خاموش رہے، اس نے پھر گالی دی پھر بھی آپ خاموش ہی رہے، تو اس شخص نے کہا: انہوں نے میری گالیوں کا جواب محض اس وجہ سے نہیں دیا ہے کہ میری ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہے۔[4] آپ کہا کرتے تھے: جو ایک بات پر صبر نہیں کرتا اس کو کئی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ بہت سا غصہ میں پی جاتا ہوں اس خوف سے کہ کہیں صورت حال اس سے بھی سنگین نہ ہو جائے۔[5] آپ کی بردباری ایک طاقتور اور صاحب اقتدار کی بردباری تھی، عاجز و کمزور کی بردباری نہیں، ایک معرکہ میں آپ نے شدید قتال کیا تو ایک شخص نے کہا: ابو بحر! بردباری کہاں گئی؟ فرمایا: زندہ کے پاس۔[6] عقل و خرد: احنف رحمہ اللہ بڑے عقل مند انسان تھے۔ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا: جس کے اندر چار خصلتیں ہوں وہ بلاتنازع اپنی قوم کی قیادت و سرداری کرے گا، جس کے پاس دین ہو جو اس کو غلط کاموں سے روکے، جس کے
Flag Counter