Maktaba Wahhabi

249 - 534
(۲) شام کی فتوحات حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ کی فتوحات: یہ بات گزر چکی ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں رومیوں نے شام میں مسلمانوں کے خلاف عظیم لشکر جمع کیا ، اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے گورنر ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ وہ شام میں مسلمانوں کے لیے فوجی کمک روانہ کریں۔ ولید نے سلمان بن ربیعہ باہلی کی قیادت میں آٹھ ہزار فوج روانہ کی۔ چنانچہ روم کے مقابلہ میں مسلمان غالب ہوئے بہت سوں کو قید کیا اور مال غنیمت حاصل کیا۔ روم و ترک نے متحدہ پروگرام کے ساتھ ان مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہا جنھوں نے شام سے آرمینیہ پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت مسلم فوج کی قیادت حبیب بن مسلمہ فہری کے ہاتھ میں تھی جو دشمن کے مقابلہ میں خفیہ تدابیر اختیار کرنے میں ماہر تھے۔ انہوں نے منصوبہ تیار کیا کہ راتوں رات رومی قائد ’’موریان‘‘ پر حملہ کریں، ان کی باتیں بیوی ام عبداللہ بن یزید کلبیہ نے سن لیں، اس نے آپ سے پوچھا کیا پروگرام ہے؟ آپ نے فرمایا: موریان کا خیمہ یا جنت، پھر آپ نے راتوں رات اچانک ان پر حملہ کر دیا اور غالب آگئے، ’’موریان‘‘ کے خیمہ میں پہنچے تو دیکھا آپ کی بیوی ام عبداللہ آپ سے پہلے وہاں پہنچ چکی ہے۔[1] آرمینیہ اور آذربیجان کی سر زمین میں حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنی فتوحات اور جہاد کا سلسلہ جاری رکھا اور اسے مصالحت کے ذریعہ سے یا بزور شمشیر فتح کر لیا۔[2] حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ آرمینیہ میں برسرپیکار ممتاز ترین قائدین میں سے تھے۔ دشمن کی پوری فوج کا صفایا کیا اور بہت سے شہروں اور قلعوں کو فتح کیا۔[3] عراقی جزیرہ کے حدود کے قریب رومی سر زمین پر حملہ کیا اور وہاں شمشاط اور ملطیہ وغیرہ بہت سے قلعوں کو فتح کیا۔ ۲۵ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب روم پر چڑھائی کی تو عموریہ تک پہنچ گئے جب دیکھا کہ انطاکیہ اور طرسوس کے مابین واقع ہونے والے قلعہ خالی ہیں تو آپ نے وہاں شامیوں اور اہل جزیرہ میں سے بہت سے لوگوں کو آباد کیا، اور آپ کے جرنیل قیس بن حر عبسی نے دوسری موسم گرما میں جنگ کو جاری رکھا، اور جب اس مہم سے فارغ ہوئے تو انطاکیہ سے قریب واقع بعض قلعوں کو مسمار کر دیا تاکہ اس سے رومی فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔[4]
Flag Counter