Maktaba Wahhabi

254 - 534
مسلمان واپس شام پہنچ گئے، اس حملہ نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان بحری جنگ پر اچھی طرح قدرت رکھتے ہیں، اور اس مہم سے مسلمانوں کو ایک طرح سے بحری جنگوں کی مشق کا موقع ملا تاکہ وہ شام یا اسکندریہ پر حملہ کی صورت میں رومی دشمن کا بھرپور مقابلہ کر سکیں۔[1] عبداللہ بن قیس شام میں بحری بیڑے کے قائد: معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے بنو فزارہ کے حلیف عبداللہ بن قیس الجاسی کو بحری بیڑے کا قائد مقرر کیا، انہوں نے موسم سرما و گرما میں پچاس بحری جنگیں کیں، نہ کوئی فوجی ڈوبا اور نہ مصیبت زدہ ہوا، آپ برابر دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لشکر کو عافیت عطا فرمائے اور ان میں سے کسی کو مصیبت زدہ کر کے ان کو آزمائش میں نہ مبتلا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ایسا ہی ہوا، لیکن جب تنہا جام شہادت نوش کرنا چاہا تو تنہا اپنی کشتی پر مقدمۃ الجیش کے طور پر نکلے پھر روم کی ایک بندرگاہ پر پہنچے، وہاں کچھ مانگنے والے ملے، ان کو نوازا، ان میں سے ایک خاتون اپنی بستی میں گئی اور لوگوں سے کہا تمھیں عبداللہ بن قیس چاہیے؟ لوگوں نے پوچھا وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: بندرگاہ میں۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کی دشمن تم عبداللہ بن قیس کو کیا پہچانو؟ اس نے ان لوگوں کو ڈانٹ پلائی اور کہا: تم عاجز لوگ ہو، عبداللہ بن قیس کی شخصیت کسی پر مخفی رہنے والی ہے! لوگ اس کے کہنے پر بندرگاہ کی طرف روانہ ہوئے اور عبداللہ بن قیس پرحملہ آور ہوئے انہوں نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا، آخرکار جام شہادت نوش کر لیا۔ آپ کے ملاح نے واپس آکر لشکر کو خبر دی۔ لشکر کی قیادت سفیان بن عوف ازدی نے سنبھالی اور لشکر کو لے کر بندرگاہ پر پہنچے اور رومیوں سے مقابلہ کیا۔ مقابلہ کے دوران میں ساتھیوں کو سخت و سست کہنا شروع کیا تو عبداللہ بن قیس کی لونڈی نے کہا کہ عبداللہ بن قیس قتال کے وقت ایسا نہیں کہتے تھے۔ سفیان نے اس سے دریافت کیا: تب کیا کہتے تھے؟ اس نے کہا: وہ کہتے تھے: ((الغمرات ثم ینجلینا۔)) ’’سختی کے اوقات ہیں، پھر ہم سے دور ہو جائیں گے۔‘‘ اس دن مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ عبداللہ بن قیس الجاسی کا آخری دور تھا۔[2] اس خاتون سے جس نے عبداللہ بن قیس کی خبر دی تھی پوچھا گیا: تم نے عبداللہ بن قیس کو کیسے پہچانا؟ اس نے کہا: دیکھنے میں تو وہ ایک تاجر لگتا تھا، لیکن جب ہم نے اس سے سوال کیا تو اس نے بادشاہ کی طرح عطا کیا۔ اس وقت میں پہچان گئی کہ ہو نہ ہو یہ عبداللہ بن قیس ہے۔[3]
Flag Counter