Maktaba Wahhabi

270 - 534
واذا المنیۃ انشبت اظفارھا الفیت کل تمیمۃ لا تنفع ’’جب موت اپنے ناخن چبھا دیتی ہے تو کوئی تعویذ کارگر نہیں ہوتا۔‘‘ و تجلدی للشامتین اریہم انی لریب الدھر لا أتضعضع [1] معرکہ ذات الصواری: افریقہ میں روم کو شکست فاش ہوئی اور روڈس سے لے کر برقہ تک اسلامی بحری بیڑے کے تسلط و غلبہ کی وجہ سے رومی ساحل خطروں سے گھر گئے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے قسطنطین بن ہرقل نے اس بحری بیڑے کو اکٹھا کیا جسے رومیوں نے پہلے سے بنا رکھا تھا، اور ایک ہزار کشتیوں کے ساتھ مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے روانہ ہوا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اسلامی فوج کو اس حملے سے روکنے کا فرمان جاری فرمایا۔ چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام سے کشتیوں کو بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں روانہ فرمایا جو جا کر عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل گئے اور اس طرح شام و مصر کی کشتیوں کی کل تعداد دو سو ہوئی، جن کے سپہ سالار اعظم عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر یہ اسلامی لشکر روانہ ہوا، اس لشکر میں وہ جانباز و بہادر مجاہدین شامل تھے جو گزشتہ معرکوں میں داد شجاعت حاصل کر چکے تھے، اور اس سے قبل مختلف و متعدد معرکوں میں فتح و نصرت سے ہمکنار ہو چکے تھے جس کی وجہ سے دشمن کی کوئی حیثیت ان کی نگاہوں میں باقی نہ رہی تھی۔ دشمن کے مقابلہ میں کشتیوں کی قلت کے باوجود وہ دشمن سے ذرا بھی خائف و ہراساں نہ ہوئے، مسلمان سمندر میں اتر پڑے، ان کے دل و دماغ میں اللہ کے دین کو غالب کرنا اور دشمن کی شان و شوکت کو مٹانا تھا۔ اس تاریخی معرکہ کے مختلف اسباب تھے جن میں سے بعض یہ ہیں: ۱۔ زبردست حملے جو مسلمانوں نے رومیوں پر افریقہ میں کیے۔ ۲۔ مسلمانوں کے بحری غلبہ کے بعد رومیوں کا اپنے مشرقی اور جنوبی ساحل پر شکست خوردہ ہونا۔ ۳۔ رومیوں کو یہ خطرہ وخوف لاحق ہونا کہ کہیں مسلمانوں کی بحری قوت مضبوط نہ ہو جائے اور وہ قسطنطنیہ پر براہ راست حملہ کرنے کا پروگرام مرتب کرنے لگیں۔ ۴۔ قسطنطین بن ہرقل نے یہ ارادہ کیا کہ خشکی اور شام و مصر اور برقہ کے سواحل پر مسلسل شکست اور نقصان کے بعد اپنی ہیبت ورعب دوبارہ قائم کیا جائے۔ ۵۔ رومیوں نے ایسا معرکہ برپا کرنا چاہا جس کے خوش آئند نتائج کا انہیں یقین ہو چلا تھا، تاکہ بحر متوسط میں ان کا غلبہ باقی رہے اور اپنے جزیروں کی حفاظت کر سکیں، پھر یہاں سے وہ عرب ممالک کے ساحلوں پر
Flag Counter