Maktaba Wahhabi

274 - 534
ہو گیا۔ لاشوں پر لاشیں سمندر میں گرنے لگیں، اور سمندر کی موجوں نے کشتیوں کو ساحل پر پہنچا دیا۔ مسلمانوں کی کثیر تعداد نے جام شہادت نوش کیا اور لاتعداد رومی قتل کے گھاٹ اتر گئے۔ یہاں تک کہ بیزنطینی مؤرخ تیوفانس نے اس معرکہ کو رومیوں کے حق میں دوسرا یرموک قرار دیا۔[1] اور امام طبری نے بیان کیا کہ اس معرکہ میں خون پانی پر غالب آگیا۔[2] رومیوں نے یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کے سپہ سالار عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کی کشتی کو ڈبو دیں تاکہ اسلامی لشکر اپنے سپہ سالار سے محروم ہو جائے، چنانچہ ایک رومی کشتی آگے بڑھی اور زنجیروں کو عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کی کشتی پر ڈال دیا تاکہ اس کو کھینچ کر مسلم لشکر سے علیحدہ کر دیں، لیکن علقمہ بن یزید غطیفی نے سپہ سالار اور ان کی کشتی کو بچا لیا، چنانچہ ان زنجیروں پر خود کود پڑے اور اپنی تلوار سے ان کو کاٹ دیا۔[3] ان تمام حالات کے باوجود مسلمانوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور اپنی عادت کے مطابق صبر و ثبات کا دامن تھامے رکھا، چنانچہ ان کے صبر و ثبات کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح و نصرت سے ہمکنار فرمایا۔ رومی بیڑے کے بچے کھچے حصے بھاگ کھڑے ہوئے، اور قریب تھا کہ قسطنطین مسلمانوں کی قید میں آجائے جیسا کہ ابن عبدالحکم کا بیان ہے، لیکن فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ جب اس نے اپنی فوج کی تباہی و بربادی کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ پانی میں اس کی فوج کی لاشیں تیر رہی ہیں اور سمندر کی موجیں انہیں ساحل پر اٹھا کر پھینک رہی ہیں اور اس کا وہ بحری بیڑا جس سے خیر و نصرت کی امید لگائے ہوئے تھا ٹکڑے ٹکڑے ہو کر سمندر میں غرق ہو رہا ہے، تو زخموں سے چور پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہوا، حسرت اس کے دل کو کھائے جا رہی تھی، نا امیدی اور شکست کو لیے ہوئے جزیرہ صقلیہ پہنچا[4] جہاں ہواؤں نے اسے پہنچا دیا تھا، اس جزیرہ کے باشندوں نے اس سے اس کے حالات معلوم کیے، اس نے انہیں جنگ کے حالات بتلائے، تو ان لوگوں نے کہا تو نے نصرانیت کے دشمنوں کو خوش کر دیا اور نصرانیت کے سپوتوں کو تباہ کر ڈالا، آج اگر مسلمان ہم پر حملہ آور ہو جائیں تو کوئی دفاع کرنے والا نہیں۔[5] انہوں نے اسے قتل کر دیا، اور اس کے ساتھ جو لوگ کشتی میں تھے انہیں چھوڑ دیا۔[6] معرکہ ذات الصواری کے نتائج: ۱۔ یہ مسلمانوں کے لیے پہلا فیصلہ کن بحری معرکہ تھا۔ نوخیز اسلامی بحری بیڑے نے اس میں صبر و ایمان، قوت و استقلال اور فکر سلیم کا مظاہرہ کیا، اور اسلامی ذہن کی منصوبہ بندی نے معرکہ کو دشمن کے لیے مشکل بنا دیا، اور اسلامی صفوں کو آسانی سے توڑنا ان کے لیے محال ہو گیا۔ اسی طرح مسلمان لمبے لمبے لوہے کے
Flag Counter