Maktaba Wahhabi

278 - 534
ٹھیک ورنہ جبراً ان کو جمع کرو، اور اس سلسلہ میں جلدی کرنے کا مطالبہ کیا۔ نیز اپنے مشہور عزم و دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: کسی کو نہ بخشا جائے، اسے میرے پاس ضرور روانہ کرو، جلدی کرو، جلدی کرو۔[1] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جہاد کے لیے فوج میں لازمی بھرتی سے متعلق سوچ رہے تھے۔ جب مختلف شعبوں سے متعلق دیوان مرتب کیے گئے اور مسلمانوں کے لیے سالانہ وظائف مقرر کیے گئے تو آپ کی اس سوچ و فکر نے عملی جامہ اختیار کیا، اور دیوان کے آغاز کے ساتھ سرکاری فوجی بھرتی شروع ہوئی، اور سرکاری افواج کے لیے بیت المال سے تنخواہیں اور عطیات مقرر کیے گئے۔ جب سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کو بحری جہاد کی اجازت فرمائی تو انہیں حکم فرمایا کہ لوگوں کو اختیار دیں، ان کو نکلنے پر مجبور نہ کریں تاکہ لوگ اس بحری مہم پر برضا و رغبت روانہ ہوں، البتہ خشکی کی مہموں پر اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے با تنخواہ سرکاری افواج پر شرکت لازمی قرار دی۔ [2] اسلامی خلافت کی سرحدوں کی حفاظت و اہتمام: چوں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سلطنت اسلامی میں وسعت ہوتی رہی اس لیے اس کے نتیجہ میں اعدائے اسلام کے حملوں سے اسلامی حدود کی حفاظت و نگرانی مرابط افواج کو ان سرحدوں پر مقرر کر کے یا مختلف حفاظتی فوجی مراکز کے قیام کے ذریعہ سے باقی رہی چنانچہ پہلا خط جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اسلامی سرحدوں پر مقرر فوجی جرنیلوں کو تحریر فرمایا وہ یہ تھا: ’’اما بعد! تم مسلمانوں کے محافظ اور ان سے دفاع کرنے والے ہو، ہم جانتے ہیں بلکہ ہمارے سامنے ہی عمر رضی اللہ عنہ نے تمہارے اصول وضوابط مقرر کیے تھے۔ ہم اس کے اندر تغیر و تبدل کو پسند نہیں کرتے، اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ تمھیں بدل دے گا، اور تمہارے بدلے دوسروں کو لائے گا، پس دیکھو تم کیسا کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داری مجھ پر ڈالی ہے میں اس کو ادا کر رہا ہوں۔‘‘[3] ادارتی امور میں آسانی پیدا کرنے کی خاطر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو شام، جزیرہ اور ان کی سرحدوں کی ولایت ایک ساتھ سونپ دی، اور انہیں مکلف کیا کہ شمشاط کی سرحد پر بذات خود حملہ کریں یا پھر روم کے ساتھ جنگ و جہاد کی رغبت رکھنے والے تجربہ کار، شجاعت کے پیکر، ان اکابرین، جرنیلوںمیں سے جو اس کو پسند کریں ان کو اس مہم پر روانہ کریں۔[4]
Flag Counter