Maktaba Wahhabi

312 - 534
گورنروں کے مابین خط و کتابت کا بھی بہت کم ذکر وارد ہے، صرف ان اوامرو فرامین کا تذکرہ مذکور ہے جو خلافت کے تمام گورنروں کو ارسال کیے گئے تھے۔[1] عہد عثمانی میں اہل یمن کے سلسلہ میں اپنے گورنروں کی اطاعت و فرماں برداری مشہور و معروف ہے، اس پر یہ واقعہ دلیل ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ثقفی شخص کو یمن روانہ کیا، جب وہ واپس آیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے یمن والوں سے متعلق دریافت کیا، تو اس شخص نے بتلایا: میں نے ان کو ایسی قوم پایا کہ ان سے جو کچھ مطالبہ کیا جائے وہ اس کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں خواہ وہ حق ہو یا باطل۔[2] اہل یمن سے متعلق یہ بات معروف ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کے بہت سے قبائل نے عراق، مصر اور شام کے مختلف نئے شہروں کی طرف ہجرت کی، جس کی وجہ سے ان کے تعلقات ان شہروں کے ساتھ مسلسل قائم رہے جیسا کہ ان کی ہجرت بھی دوسرے شہروں کی طرف عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مسلسل جاری رہی اور جب آپ کے آخری دور میں جو فتنہ رونما ہوا، اس میں یمن کے بعض یہودیوں کا انتہائی خطرناک کردار رہا، جس کے نتیجہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پیش آئی۔ ان فتنہ پروروں کی قیادت عبداللہ بن سبا کے ہاتھ میں تھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بہت سے گورنر یمن کو خیرباد کہہ کر حجاز آگئے تاکہ وہاں رونما ہونے والے واقعات میں حصہ لے سکیں، انہی میں سے یعلی بن منیہ اور عبداللہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہما بھی تھے۔[3] شام: جس وقت عثمان رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے اس وقت شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما تھے، عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے عہدہ پر قائم رکھا، [4] جس طرح یمن، بحرین اور مصر وغیرہ کے دوسرے بعض گورنروں کو باقی رکھا اور دیگر دوسرے علاقوں کو بھی اس میں شامل کر دیا، اس طرح معاویہ رضی اللہ عنہ پورے شام کے مطلق گورنر قرار پائے، بلکہ آپ کے گورنروں میں سب سے زیادہ طاقت ور اور اقتدار والے گورنر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز میں دوسرے با اثر گورنر بھی تھے، انہی میں سے عمیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ بھی تھے، یہ حمص کے گورنر تھے اور ان کا مقام عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک معاویہ رضی اللہ عنہ سے کم نہ تھا، لیکن عمیر رضی اللہ عنہ بیماری کا شکار ہو گئے جس کی وجہ سے گورنری کی ذمہ داری سنبھالنے کے قابل نہ رہے لہٰذا انہوں نے خود ہی گورنری سے معذرت کرتے ہوئے استعفا دے دیا، بعد میں عثمان رضی اللہ عنہ نے حمص کو بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی گورنری میں شامل کر دیا جس سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے اقتدار اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا اور آپ کا اقتدار حمص تک پہنچ گیا۔ جس پر آپ سے
Flag Counter