Maktaba Wahhabi

325 - 534
(۲) گورنروں کے ساتھ عثمانی سیاست اور ان کے حقوق و فرائض گورنروں کے ساتھ عثمانی سیاست: ۲۴ھ کے آغاز میں عثمان رضی اللہ عنہ نے زمام خلافت سنبھالا، اس وقت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے امراء وگورنر عالم اسلام میں پھیلے ہوئے تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے مکمل سال بھر ان کو ان کے عہدوں پر باقی رکھا۔ پھر اس کے بعد مسلمانوں کے مصالح کے پیش نظر اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے گورنروں کی معزولی اور تعیین شروع کی۔ اس سلسلہ میں عثمان رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وصیت پر عمل کیا جس میں انہوں نے اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کی تھی کہ میرے مقرر کردہ کسی گورنر کو سال بھر سے زیادہ اس عہدہ پر باقی نہ رکھا جائے، البتہ ابو موسیٰ اشعری کو ان کے عہدہ پر چار سال تک باقی رکھا جائے۔[1] عثمان رضی اللہ عنہ گورنروں کے ساتھ اپنی سیاست کے سلسلہ میں اپنی بہت سی کارروائیوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشوروں پر عمل کرتے تھے۔ یہی وجہ رہی کہ آپ نے مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر بعض صوبوں کو دوسرے صوبوں کے ساتھ جوڑ دیا، اور بعض علاقوں میں گورنروں کو محدود کر دیا۔ چنانچہ بحرین کو بصرہ کے ساتھ ملا دیا اور شام کے بعض صوبوں کو بعض دوسرے صوبوں کے ساتھ گورنر کی وفات یا استعفا کی صورت میں ایک دوسرے سے ملا دیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ برابر گورنروں کو لوگوں کے ساتھ رحم دلی اور عدل و انصاف کی وصیت و نصیحت کرتے رہتے تھے، چنانچہ خلیفہ بنائے جانے کے بعد آپ کا گورنروں کے نام پہلا خط یہ تھا: ’’اما بعد! اللہ تعالیٰ نے حکام کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ عوام کے لیے راعی بن کر رہیں، ٹیکس وصول کرنے والے نہ بنیں، اس امت کے اوّلین لوگ راعی بنا کر پیدا کیے گئے ہیں ٹیکس وصول کرنے والے نہیں بنائے گئے ہیں، خطرہ ہے کہ تمہارے حکمران ٹیکس وصول کرنے والے بن جائیں راعی نہ رہیں، جب لوگ ایسے ہو جائیں تو پھر حیا، امانت اور وفاداری ختم ہو جائے گی۔ خبردار! بہترین سیرت یہ ہے کہ تم مسلمانوں کے امور اور ان کی ذمہ داریوں میں غور کرو، ان کے حقوق انہیں ادا کرو اور ان پر
Flag Counter