Maktaba Wahhabi

369 - 534
(۴) ابوذر غفاری اور عثمان رضی اللہ عنہما کے مابین تعلقات کی حقیقت خلاصہ: عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے معاندین ان پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو ’’ربذہ‘‘ کی طرف جلا وطن کر دیا، اور بعض مؤرخین اس زعم میں مبتلا ہیں کہ عبداللہ بن سبا ملک شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملا اور انہیں زہد و قناعت، فقراء کی ہمدردی اور ضرورت سے زائد مال دوسروں میں تقسیم کر دینے پر رغبت دلائی، اور ان کو معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کرنے پر ابھارا۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے ابن سبا کو پکڑ کر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا، اور کہا: اللہ کی قسم اسی شخص نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو تمہارے پاس بھیجا تھا، لہٰذا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو شام سے نکال دیا۔[1] اور احمد امین نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور مزدک فارسی کی رائے میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، اور وجہ تشبیہ یہ بیان کی ہے کہ ابن سبا یمن میں تھا اور عراق میں چکر لگایا کرتا تھا، اور اسلام سے قبل یمن و عراق میں فارسی موجود تھے، اس لیے اس کا بہت ہی قریبی احتمال ہے کہ اس نے یہ نظریہ عراق کے مزدکیوں سے حاصل کیا ہو، اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے حسن نیت سے اس نظریہ کو اختیار کر لیا ہو۔[2] لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ سے متعلق جو کہا گیا ہے اور جس کی وجہ سے عثمان رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع کی جاتی ہے سب باطل ہے، اس کی بنیاد کسی صحیح روایت پر نہیں ہے اسی طرح ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابن سبا کے مابین اتصال سے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے، سب بالکل غلط ہے۔[3] صحیح بات یہ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنی پسند سے ’’ربذہ‘‘ میں اقامت کو اختیار کیا تھا، اور اس کا سبب فہم آیت میں آپ کا وہ موقف تھا جس میں آپ نے تمام صحابہ سے مخالفت کی تھی، اور اپنی رائے پر مصر تھے، اور کسی نے بھی اس پر آپ کی موافقت نہ کی، آخرکارآپ نے خود ہی ربذہ [4] میں اقامت پذیر ہونے کا مطالبہ کیا، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں وہاں بکثرت جایا کرتے تھے۔ آپ کو جبراً وہاں جلا وطن نہیں کیا گیا تھا اور نہ
Flag Counter