Maktaba Wahhabi

379 - 534
کے مابین مناظرہ ۳۰ھ میں پیش آیا تھا، اور ابوذر رضی اللہ عنہ مدینہ واپس آگئے تھے اور ربذہ میں ۳۱ھ، ۳۲ھ میں آپ انتقال کر گئے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابن سبا کے بصرہ ظہور کے وقت ابوذر رضی اللہ عنہ وفات پا چکے تھے، تو کیسے اور کہاں ابن سبا سے ان کی ملاقات ہوئی۔[1] ابوذر رضی اللہ عنہ عبداللہ بن سبا یہودی کے افکار و نظریات سے دور و نزدیک کہیں سے بھی متاثر نہیں تھے، اور وفات تک ربذہ میں اقامت پذیر تھے، اور عہد عثمانی میں رونما ہونے والے فتنوں سے بالکل دور رہے۔[2] مزید برآں آپ فتنوں سے ممانعت کی احادیث میں سے ایک حدیث کے راوی بھی ہیں۔[3] ابوذر رضی اللہ عنہ کی وفات اور آپ کے بچوں کو عثمان رضی اللہ عنہ کا اپنے بچوں میں ضم کر لینا: غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے عرض کیا: ابوذر رضی اللہ عنہ پیچھے رہ گئے، ان کے اونٹ نے انہیں پیچھے رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوڑو! اگر اس کے اندر خیر ہو گی تو اللہ تعالیٰ تم سے ملا دے گا، اور اگر ایسا نہیں تو اللہ نے تمھیں اس سے بچا لیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنے اونٹ پر انتظار کیا، لیکن جب دیکھا کہ وہ آگے نہیں بڑھ رہا ہے تو اپنا ساز و سامان اس سے اتارا، اور اپنی پیٹھ پر لاد کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیدل چل دیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثنائے سفر میں ایک منزل پر قیام فرمایا، مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کسی کو آتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کرے ابوذر ہوں، جب لوگوں نے غور کیا تو کہا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم وہ تو ابوذر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تنہا چلیں گے ، تنہا ہی مریں گے، اور تنہا ہی اٹھائے جائیں گے۔[4] زمانہ گزرا، عثمان رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت آیا، ابوذر رضی اللہ عنہ نے ربذہ میں سکونت اختیار کی، اور جب وفات کا وقت آیا تو اپنی بیوی اور غلام کو وصیت کی کہ جب میں وفات پا جاؤں تو مجھے غسل دینا اور کفن پہنا کر میرا جنازہ اٹھا کر بیچ راستہ میں رکھ دینا، اور جو پہلا قافلہ گزرے اس سے کہنا یہ ابوذر کا جنازہ ہے۔ جب آپ کی وفات ہو گئی تو آپ کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا۔ ایک قافلہ کا گزر اس راستہ سے ہوا،قریب تھا کہ قافلہ آپ کو کچل دیتا، اتنے میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قافلے سے آگے بڑھے اور دریافت کیا: یہ کیا ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ یہ ابوذر رضی اللہ عنہ کا جنازہ ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا: اللہ تعالیٰ ابوذر پر رحم فرمائے، یہ تنہا چلیں گے، تنہا وفات پائیں گے اور تنہا اٹھائے جائیں گے۔[5] پھر ان لوگوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور
Flag Counter