Maktaba Wahhabi

388 - 534
مطالعہ کی ضرورت و افادیت بھی معلوم ہے۔ اس موضوع پر جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس کا جو بھی مطالعہ کرے گا اس پر یہ حقیقت آشکارا ہو جائے گی کہ یہ ایک بہت بڑی منصوبہ بند سازش ہے جس کی تنفیذ میں یہود و نصاریٰ اور مجوس و منافقین نے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا ہے اور اسلامی تاریخ کے ہر مرحلہ میں اعدائے اسلام کی سازش اس امت کے ساتھ رہی ہے۔[1] لیکن یہ سازش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی تھی جب تک کہ کمزوری کے داخلی عوامل و اسباب نہ ہوتے۔ ایسی صورت میں کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کا مطالعہ و تحقیق واجبات میں سے قرار نہیں پاتا ہے؟ تاکہ امت اسلامیہ کی کمزوری کے اسباب کی معرفت حاصل ہو، اور جس راہ سے یہ بیماری امت میں گھسی ہے اس کی تعیین ہو سکے، اور امت کی موجودہ صورت حال کی اصلاح میں استفادہ کیا جائے، اور مستقبل میں ان لغزشوں سے اجتناب کیا جا سکے۔ یا اس کا مقدر یہی ہے کہ اندر کے اپنے امراض اور باہر سے دشمنوں کی سازشوں کے تلے دبی رہے؟[2] فتنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں جو عظیم واقعات رونما ہوئے اس کے گہرے اور سنجیدہ مطالعہ کی ضرورت ہے، تاکہ اس سے دروس و عبر کو حاصل کیا جائے اور حاضر و مستقبل میں روشنی مل سکے، اور منہاج نبوی پر خلافت راشدہ کی دعوت کی رہنمائی مل سکے، تاکہ انسانیت اللہ کے دین و شریعت سے سعادت مند ہو، اور شقاوت و بدبختی سے اس کو نجات ملے، جو شریعت الٰہی سے دور ی کی وجہ سے امت کو لاحق ہوئی ہے۔ وقوع فتنہ سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خبر دینے کی حکمتیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی احادیث میں خبر دی ہے کہ اس امت میں اختلاف اور قتال رونما ہو گا۔ متعدد احادیث میں اجمالاً یا تفصیلاً اس کی طرف اشارہ موجود ہے۔ ان فتنوں کے اسباب و نتائج مختلف، اور بعض واقعات اور اس کو بھڑکانے والوں سے متعلق خبر دینے کے اسالیب متنوع ہیں۔ یہ بیان و توضیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان سوالات کے جواب میں تھی جو صحابہ کرام آپ سے کیا کرتے تھے۔ اس عظیم نعمت کا صحابہ مشاہدہ کر رہے تھے اور اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کی تھی، در حقیقت یہ اخوت، وحدت، وحدت صف اور اتفاق کی نعمت تھی۔ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے کہ آیا یہ نعمت قائم و دائم رہے گی یا زائل ہو جائے گی۔ اور چوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی الٰہی کی روشنی میں جانتے تھے کہ یہ نعمت دائمی نہیں ہے، لہٰذا آپ نے چاہا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایسی تربیت فرمائیں کہ وہ ان مشکلات و فتن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں، اور جب اللہ ان فتنوں کے وقوع کو مقدر فرمائے تو ان کے سلسلہ میں صحیح موقف اختیار کر سکیں، اور فوراً اس کے علاج کی کوشش کریں۔ ان فتنوں سے متعلق وارد شدہ احادیث میں غور و فکر سے درج ذیل حکمتیں اور فوائد سامنے آتے ہیں[3] :
Flag Counter