Maktaba Wahhabi

393 - 534
(۲) فتنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے اسباب امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال تک امیر المومنین رہے، شروع کے چھ سال آپ پر کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا، آپ قریش کے نزدیک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے زیادہ محبوب تھے کیوں کہ عمر رضی اللہ عنہ ان پر سخت تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ نرم تھے اور صلہ رحمی کرتے تھے۔ پھر اس کے بعد فتنہ شروع ہوا۔ مسلم مؤرخین نے عہد عثمانی کے نصف ثانی (۳۰ ۳۵ھ) میں رونما ہونے والے واقعات کو فتنہ سے تعبیر کیا ہے جس کے نتیجہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پیش آئی۔[1] مسلمانوں کے درمیان ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں اور عثمان رضی اللہ عنہ کے شروع میں کوئی اختلاف نہ تھا، پھر آپ کے آخری دور میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ اختلاف رونما ہوا، فتنہ پرور اٹھے اور عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا، اور اس کے بعد مسلمانوں میں اختلاف برپا ہو گیا۔[2] خلافت صدیقی، خلافت فاروقی اور خلافت عثمانی کے نصف اوّل تک اسلامی معاشرہ درج ذیل اوصاف سے متصف تھا: ٭ اسلامی معاشرہ اسلام کے کامل معانی پر مشتمل تھا، اللہ اور یوم آخرت پر گہرا ایمان تھا، اسلامی تعلیمات واضح سنجیدگی اور ظاہر التزام کے ساتھ نافذ تھیں، پوری تاریخ میں اس معاشرہ میں معصیت و گناہ کی مقدار سب سے کم تھی، دین اس معاشرہ کی زندگی تھی، یہ ثانوی حیثیت کی چیز نہ تھی کہ کبھی کبھار اس کو اختیار کر لیا جائے، دین ہی اس معاشرہ کی روح و زندگی تھی۔ صرف مراسم عبودیت ہی تک نہیں کہ جسے صحیح طریقہ سے ادا کرنے کی کوشش کریں بلکہ ان کے اخلاقیات، تصورات، اہتمامات، اعلیٰ اقدار، اجتماعی روابط، خاندانی تعلقات، پڑوس کے روابط، بیع و شراء، تجارت، سفر، کسب معاش، امانت، تعامل، ناداروں کی کفالت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، حکام اور والیان کے کاموں کی نگرانی، سبھی امور میں دین ہی کا دور دورہ تھا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس معاشرہ کا ہر فرد ضرور ہی اس وصف پر قائم تھا۔ یہ تو دنیا کی زندگی میں اور کسی انسانی معاشرہ میں ممکن نہیں۔ نبوی معاشرہ میں بھی جیسا کہ قرآن میں ہے منافقین موجود تھے جو اسلام ظاہر کرتے تھے، لیکن حقیقت میں اعدائے اسلام کے لیے کام کر رہے تھے۔ کمزور ایمان، تھکے ہارے، سست اور
Flag Counter