Maktaba Wahhabi

396 - 534
ارشاد الٰہی ہے: وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (55) (النور: ۵۵) ’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جوان سے پہلے تھے، اور یقینا ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا جسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے، اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن سے بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں گے وہ یقینا فاسق ہیں۔‘‘ جو امور مسلمانوں کے خلافت راشدہ کی طرف پلٹنے کے سلسلہ میں معاون ہو سکتے ہیں ان میں سے ان عوامل و اسباب کی معرفت ہے جو زوال کا سبب بنے ہیں، تاکہ ہم ان سے اجتناب کریں، اور ان اسباب کو اختیار کریں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس امت کی تکریم کا سبب بنایا ہے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ فتنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے اسباب کو اس کی اہمیت کے پیش نظر تفصیل سے بیان کریں۔ چنانچہ اہم ترین اسباب یہ تھے: ۱۔ خوش حالی اور معاشرہ پر اس کا اثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنگ دستی اور فقر و فاقہ دیکھتے تو انہیں صبر دلاتے اور بتلاتے کہ یہ صورت حال طول نہیں پکڑے گی، دنیا کے خزانے ان پر کھلیں گے ساتھ ہی ساتھ عمل صالح اور جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ کر اس دنیا میں مشغول ہو جانے سے منع فرماتے، تاکہ یہ انہیں دنیا اور اس کے متاع زائل کی خاطر قتال و خونریزی تک نہ پہنچائے۔[1] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس نبوی انتباہ کو صحیح طور سے سمجھا تھا، اسی لیے آپ کی سیاست تھی کہ مسلمانوں کو مال و زخارف دنیا کے فتنہ سے محفوظ رکھا جائے اس لیے آپ نے مسلمانوں کو بلاد عجم میں توسع سے منع فرمایا، اگر اس توسع میں دیگر مصالح راجحہ ظاہر نہ ہوتے تو یہ ممانعت قائم رہتی، لیکن پھر بھی آپ نے اکابرین صحابہ، مہاجرین و انصار جو مدینہ میں تھے انہیں اجازت نہ دی بلکہ ان کے حق میں ممانعت باقی رہی۔[2] اور بلاشبہ عمر رضی اللہ عنہ نے جو
Flag Counter