Maktaba Wahhabi

432 - 534
سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ انہیں کوفہ سے جلا وطن کر دو۔ یہ کل تیرہ (۱۳) افراد تھے۔ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق شام کی طرف معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا، اور عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے متعلق معاویہ رضی اللہ عنہ کو خط تحریر کیا کہ کوفہ والوں نے کچھ لوگوں کو تمہارے پاس بھیجا ہے جنھوں نے وہاں فتنہ برپا کیا تھا، لہٰذا تم انہیں خوف دلاؤ، ڈراؤ اور ان کی تادیب کرو، اور اگر ان سے خیر محسوس کرو تو اسے ان سے قبول کرو۔[1] واضح رہے کہ جن حضرات کو شام کی طرف جلا وطن کیا گیا تھا ان میں یہ لوگ تھے: اشترنخعی، جندب ازدی، صعصعہ بن صوحان، کمیل بن زیاد، عمیر بن ضابی، ابن الکواء۔[2] فسادی معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جلا وطنی گزارتے ہیں: یہ لوگ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو آپ نے انہیں ایک کنیسہ میں رکھا، جس کا نام کنیسہ مریم تھا۔ جو کچھ عراق میں ان کو ملتا تھا، یہاں بھی وہ انہیں ملتا رہا، معاویہ رضی اللہ عنہ صبح و شام کا کھانا ان کے ساتھ کھاتے رہے، ایک دن آپ نے ان سے کہا: تم عرب ہو اور تمہارے پاس دانت اور زبان ہے۔ اسلام کے ذریعہ سے تمھیں شرف و منزلت ملی ہے۔ دوسری اقوام پر غلبہ حاصل ہوا، اور ان کا مرتبہ اور میراث تمھیں ملی ہے۔ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم قریش کو ناپسند کرتے ہو، اگر قریش نہ ہوتے تو تم اسی طرح ذلیل ہوتے جیسا تم پہلے ذلیل تھے۔[3] عثمان رضی اللہ عنہ اچھی طرح جانتے تھے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نہ حل ہونے والے مشکل امور کو سلجھانے والے ہیں۔ آپ فصیح و بلیغ تھے، آپ انتہائی حلم و بردباری اور صبر کے مالک تھے، ذکاوت، ہوشیاری اور چالاکی اور سیاسی بصیرت آپ کو حاصل تھی، جس سے فتنوں کا مقابلہ کر سکتے تھے، اور یہی وجہ تھی کہ جب کوئی مشکل قضیہ پیش آتا تو اسے ابن ابی سفیان کے حوالہ کر دیتے تاکہ وہ اس کو حل کریں، چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان حضرات کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی۔ اولاً ان کی تکریم کی، ان کے ساتھ ملے بیٹھے، اور ان پر حکم لگانے سے قبل ان کے سرائر کو پہنچے اور جب اجنبیت دور ہو گئی اور تکلف ختم ہو گیا تو آپ نے یہ محسوس کیا کہ قبائلی عصبیت ان کو حرکت دے رہی ہے اور حکومت و سلطنت کی شہوت ان کو بھڑکاتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ انہیں دو طرح سے لگام دی جائے: ٭ عرب کے عزو شرف میں اسلام کا اثر۔ ٭ اسلام کی نشر و اشاعت میں قریش کا کردار۔ اگر ان کی ذہنی ساخت میں اسلام کا اثر رہا ہو تو پھر انہیں اس گفتگو کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے عرب کی صورت حال رکھی کہ کس طرح وہ اسلام کی بدولت ایک امت قرار پائے، جو ایک امام کے تابع ہیں اور کس طرح وہ لوگ لاقانونیت، خونریزی اور بدبودار قبائلی عصبیت کو ترک کر
Flag Counter