Maktaba Wahhabi

457 - 534
اور فتنہ برپا کرنا تھا۔ صحابہ کرام اور دیگر مسلمانوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو ان سبائیوں اور قائدین فتنہ کو قتل کرنے کا مشورہ دیا کیوں کہ ان کی کذب بیانی و جعل سازی اور بغض و دشمنی ظاہر ہو چکی تھی۔ بلکہ ان کے قتل پر لوگوں نے اصرار کیا تاکہ ان کے شر سے مسلمانوں کو نجات مل جائے، اور عالم اسلام میں استقرار اور امن و امان قائم ہو اور اس فتنہ کا خاتمہ ہو جائے جسے یہ لوگ اور ان کے پیروکار برپا کر رہے تھے۔ لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کی رائے دوسری تھی، آپ دوسرا حل چاہتے تھے، اسی لیے آپ نے ان کو چھوڑ دیا اور ان کے عدم قتل کو ترجیح دی اور مصر اور کوفہ و بصرہ سے آئے ہوئے سبائیوں کے خلاف آپ نے کوئی کارروائی نہیں کی، حالاں کہ آپ ان کے منصوبوں اور ارادوں سے بخوبی واقف تھے اور انہیں مدینہ سے اپنے اپنے شہروں کو جانے دیا۔[1] باغیوں کے بعض مطالبات کو پورا کرنا: یقینا بعض والیان کی معزولی اور بعض کی تولیت و تقرری سے متعلق باغیوں کے بعض مطالبات کو پورا کرنا حق و عدل کے قیام اور صورت حال کے علاج کے لیے کافی تھا بشرطیکہ معاملات اپنی طبعی حالت میں ہوتے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مطالبات اور شکایات سے مقصود جاہلی عصبیت بھڑکانا تھا تاکہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ برپا کیا جائے اور ان کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے، چنانچہ وہی ہوا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سلسلہ میں خبر دی تھی۔[2] فتنوں کے ساتھ نمٹنے کے سلسلہ میں عثمانی ضوابط: فتنوں کے ساتھ نمٹنے کے سلسلہ میں جو بھی عثمان رضی اللہ عنہ کے طرز عمل پر غور کرے گا وہ ایسے بعض ضوابط کو مستنبط کر سکتا ہے جو فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کے لیے ممد و معاون ثابت ہوں، وہ بعض ضوابط درج ذیل ہیں: تحقیق و جستجو: آپ نے تحقیقاتی کمیشن بٹھائے، مختلف کمیٹیاں تشکیل دیں اور صوبوں کو روانہ کیا، صوبوں کے باشندگان کی باتیں سنیں اور سبائیوں کی صفوں میں اپنے آدمی گھسا کر ان کی حقیقت کا پتہ چلایا اور ان کے خلاف احکام جاری کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیا۔ عدل و انصاف کو لازم پکڑنا: اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ آپ نے صوبوں کے باشندگان کے نام خطوط ارسال کیے، اور ان سے مطالبہ کیا کہ اگر کسی کو کسی والی کی طرف سے مارا گیا ہو یا برا بھلا کہا گیا ہو تو وہ موسم حج میں حاضر ہو اور اپنا حق وصول کر لے، خواہ اس کا تعلق خلیفہ سے ہو یا کسی عامل و والی سے۔[3]
Flag Counter