Maktaba Wahhabi

46 - 534
ام جمیل اور اس کے شوہر ابو لہب نے یہ سمجھاتھا کہ رقیہ و ام کلثوم رضی اللہ عنہما کو طلاق دلا کر محمدی گھرانے کو زک پہنچائیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ نے رقیہ و ام کلثوم رضی اللہ عنہ کے لیے خیر و بھلائی منتخب فرمائی، اور بدبخت ابولہب و ام جمیل کو رسوا و ذلیل کیا، وہ اپنا منہ لے کر رہ گئے اور اللہ نے نبوی گھرانے کو ان کے شر سے محفوظ رکھا، اور اللہ کا حکم مقدر تھا اور نافذ ہو کر رہا۔[1] ۵۔ ابتلاء اور حبشہ کی طرف ہجرت ابتلاء کی سنت الٰہی افراد و جماعت اور اقوام و ملل میں جاری ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہ سنت جاری رہی انہوں نے ان مصائب و آلام کا اس طرح مردانہ وار سامنا کیا جس سے دیوہیکل پہاڑ عاجز آجائیں۔ اللہ کی راہ میں انہوں نے اپنا مال و خون بہایا اور مشقتیں برداشت کیں، اعلیٰ حسب و نسب کے مسلمان بھی اس ابتلاء سے محفوظ نہ رہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ بھی اپنے چچا حکم بن ابی العاص بن امیہ کے ہاتھوں اللہ کی راہ میں اذیت پہنچائے گئے۔ چچا نے آپ کو رسّی سے جکڑ دیا اور کہا: کیا تم نے اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر نئے دین کو اختیار کر لیا ہے؟ میں تم کو اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ تم اس دین سے پھر نہیں جاتے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم!میں کبھی اس دین کو چھوڑ نہیں سکتا، جب حکم نے دین پر استقامت اور ان کی اپنے موقف میں صلابت دیکھی تو چھوڑ دیا۔[2] ایذا رسانی کا یہ سلسلہ تمام مسلمانوں کے ساتھ شدت اختیار کر گیا اور حد سے تجاوز کر گیا، یاسر اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہما شہید کر دیے گئے۔ اس صورت حال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت پریشان ہوئے اور مسلمانوں کے سلسلہ میں فکر مند ہوئے کہ ان کے لیے جائے سکون کہاں ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حبشہ کا خیال آیا اور مسلمانوں سے فرمایا: ((لو خرجتم إلی الحبشۃ فإن بہا ملکا صالحا لا یظلم عندہ احد۔)) ’’اگر تم حبشہ چلے جاؤ تو بہتر ہو گا، وہاں صالح بادشاہ ہے اس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا ہے۔‘‘[3] حبشہ کی طرف ہجرت کا آغاز ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الم زدہ ہوئے، آپ دیکھ رہے تھے کہ مسلمان چپکے چپکے مکہ سے نکل رہے ہیں[4] اور سمندری سفر کر رہے ہیں۔ بعض سواری پر اور بعض پیدل چل کر بحر احمر کے ساحل پر پہنچے پھر سب نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر بنا لیا، اللہ کی مشیت سے انہیں دو کشتیاں مل گئیں اور
Flag Counter