Maktaba Wahhabi

462 - 534
پارہ پارہ نہیں کریں گے اور نہ مسلمانوں کی جماعت سے اختلاف کریں گے۔ پھر یہ سب راضی خوشی واپس ہو گئے۔[1] مصر کے باغیوں سے مذاکرات کے لیے عثمان رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ کو روانہ کرتے ہیں: یہ باغی شہادت سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل ذی مروہ میں اترے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے شخص کو ان سے مذاکرات کے لیے بھیجا، اس دوسرے شخص کا نام روایات میں مذکور نہیں۔ علی رضی اللہ عنہ ان سے جا کر ملے اور ان سے کہا: اللہ کی کتاب کے مطابق تمہارے مطالبات پورے کیے جائیں گے بشرطیکہ اپنے تمام اعتراضات سے باز آجاؤ، انہوں نے اس سے موافقت کی۔[2] اور ایک روایت میں ہے کہ دو یا تین مرتبہ طرفین سے سخت کلامی ہوئی اور پھر ان لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور امیر المومنین کے سفیر، تمہارے اوپر اللہ کی کتاب پیش کر رہے ہیں قبول کر لو چنانچہ انہوں نے قبول کر لیا۔[3] پانچ نکتوں پر مصالحت ہو گئی۔ جلا وطن کو واپس کیا جائے گا، محروم کو عطا کیا جائے گا، فے اور مال غنیمت کو تقسیم کیا جائے گا، تقسیم میں عدل و انصاف کیا جائے گا، امانت و قوت سے متصف لوگوں کو عامل و افسر بنایا جائے گا۔ اس کو ایک دستاویز میں تحریر کیا گیا، اور یہ شرط رکھی گئی کہ عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو بصرہ پر دوبارہ گورنر مقرر کیا جائے اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو کوفہ پر بحیثیت گورنر باقی رکھا جائے۔[4] اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر وفد سے الگ الگ مصالحت کی، اور پھر یہ سب اپنے اپنے وطن کو واپس ہو گئے۔[5] مصری وفد کے قتل سے متعلق جعلی خط: اس مصالحت اور باغیوں کے راضی و خوشی واپس ہو جانے کے بعد فتنہ کی آگ بھڑکانے والوں کے سامنے واضح ہو گیا کہ اب ان کا منصوبہ ناکام ہو گیا اور ان کے مقاصد پورے نہ ہوئے، اس لیے ان لوگوں نے دوسرا منصوبہ تیار کیا تاکہ فتنہ کی آگ بھڑکا سکیں اور اس کو دوبارہ زندہ کر کے اس مصالحت کا صفایا کر دیں جو عثمان رضی اللہ عنہ اور وفود کے درمیان طے پائی ہے۔ اس حقیقت کا انکشاف اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ جب مصری واپس ہو رہے تھے، تو راستہ میں انہوں نے اونٹ پر ایک سوار کو دیکھا، جو کبھی ان کے ساتھ ہو لیتا ہے اور کبھی ان سے الگ ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ان سے بھاگ رہا ہے، گویا زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ مجھے پکڑ لو۔ آخر ان لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور اس کی تلاشی لی، اس کے پاس مصر کے گورنر کے نام عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک خط ملا جس
Flag Counter