Maktaba Wahhabi

467 - 534
امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ اور محاصرین کے درمیان مذاکرات: جب محاصرہ مکمل ہو گیا اور باغیوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کو گھیر لیا تو آپ سے مطالبہ کیا کہ خلافت سے معزول ہو جائیں ورنہ وہ انہیں قتل کر دیں گے۔[1]عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے اس مطالبہ کو رد کرتے ہوئے معزولی سے انکار کر دیا، اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جو لباس مجھے پہنایا ہے اس کو اتار نہیں سکتا۔ [2] اس سے آپ کا اشارہ اس وصیت کی طرف تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کی تھی۔ صورت حال کے پیش نظر مختصر سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے اس کے برعکس تھی جب کہ بعض نے آپ کو معزولی کا مشورہ دیا، انہی میں سے مغیرہ بن اخنس رضی اللہ عنہ تھے لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو رد کر دیا۔[3] عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ، عثمان رضی اللہ عنہ کو منصب خلافت سے عدم تنازل پر ابھارتے ہیں: محاصرہ کے دوران میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: دیکھ رہے ہو یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ لوگ کہہ رہے ہیں خلافت سے دست بردار ہو جاؤ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے آپ سے کہا: اگر آپ خلافت سے دست بردار ہو جائیں تو کیا آپ ہمیشہ ہمیش دنیا میں زندہ رہیں گے؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر آپ خلافت سے دست بردار نہ ہوں تو کیا یہ لوگ آپ کو قتل سے زیادہ کچھ کر سکتے ہیں؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا یہ لوگ آپ کے لیے جنت یا جہنم کے مالک ہیں؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو آپ اس قمیص کو نہ اتاریں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہنایا ہے، ورنہ یہ سنت قرار پا جائے گی کہ جب بھی لوگ اپنے خلیفہ یا امام کو ناپسند کریں گے اس کو قتل کر دیں گے۔[4] اللہ تعالیٰ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راضی ہو آپ کس قدر دور اندیش تھے۔ آپ نہیں چاہتے تھے کہ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ ، خلفاء کے لیے سنت سیئہ جاری کریں۔ عثمان رضی اللہ عنہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے تھے۔ اگر امیر المومنین ان سبائی باغیوں کے مطالبہ پر خلافت سے تنازل اختیار کر لیتے تو خلفاء اقتدار پسندوں اور خود غرضوں کے ہاتھ میں کھلونا بن جاتے، اور ایسی صورت میں خلیفہ کا وقار مجروح ہو جاتا، اور لوگوں کے دلوں میں اس کی ہیبت ختم ہو جاتی۔ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورہ سے اپنے بعد آنے والے خلفاء کے لیے سنت حسنہ جاری کر دی۔ صبر و احتساب سے کام لیا، نہ تو خلافت سے دست بردار ہوئے اور نہ ہی مسلمانوں کا خون بہایا۔[5]
Flag Counter