Maktaba Wahhabi

474 - 534
اس طرح وہ میرا خون حلال نہ کر سکیں گے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا کہ قریش کا ایک شخص مکہ میں الحاد کرے گا اس پر دنیا کا آدھا عذاب ہو گا، میں وہ شخص ہونا نہیں چاہتا۔ اور رہی تمہاری تیسری پیش کش کہ میں شام چلا جاؤںوہاں شامی ہیں اور وہاں معاویہ ہیں تو میں دار ہجرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس کو چھوڑ نہیں سکتا۔[1] ۴۔عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دفاع کا عزم مصمم کر لیا، اور بعض حضرات گھر میں داخل ہو گئے، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے سختی کے ساتھ انہیں دفاعی شکل میں بھی قتال کرنے سے منع کر دیا جس کی وجہ سے دفاع کے سلسلہ میں ان کی رغبت و خواہش پوری نہ ہو سکی۔ انہی میں سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے امیر المومنین! ان سے قتال کیجیے، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے ان سے قتال کو حلال کر دیا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم میں ان سے کبھی قتال نہیں کر سکتا ہوں۔[2] اور ایک روایت میں ہے: اے امیر المومنین! ہم آپ کے ساتھ گھر میں سمجھ بوجھ رکھنے والوں کی ایک جماعت ہیں اللہ تعالیٰ اس سے کم تعداد میں بھی فتح و نصرت عطا کرتا ہے آپ ہمیں اجازت دیں، عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ کی قسم دلاتا ہوں کہ میری خاطر کسی شخص کا خون نہ بہایا جائے۔ [3] پھر سیّدنا عثمان نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو گھر میں موجود افراد پر امیر منتخب کیا اور فرمایا میری اطاعت جس پر لازم ہے وہ عبداللہ بن زبیر کی اطاعت کرے۔[4] ۵۔کعب بن مالک انصاری اور زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہما : کعب بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے انصار کو عثمان رضی اللہ عنہ کی نصرت پر ابھارا اور ان سے کہا: اے انصار! اللہ کے انصار بن جاؤ، اے انصار! اللہ کے انصار بن جاؤ، انصار عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان کے دروازہ پر ٹھہر گئے۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: یہ انصار دروازے پر کھڑے ہیں اگر آپ چاہیں تو ہم اللہ کے انصار بن جائیں، اگر آپ چاہیں تو ہم اللہ کے انصار بن جائیں۔[5] لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے قتال کی اجازت دینے سے انکار کیا اور فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔[6]
Flag Counter