Maktaba Wahhabi

489 - 534
بلوغت کو پہنچ جائے اور وعدہ پورا کرو کیوں کہ قول و قرار کی باز پرس ہونے والی ہے۔‘‘ یہ اللہ کے حضور معذرت ہے اور شاید کہ تم عبرت حاصل کرو۔ اما بعد! میں نے اپنے نفس کو بے قصور نہیں قرار دیا: وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ (53) (یوسف: ۵۳) ’’میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا بے شک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے یقینا میرا رب بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے۔‘‘ اگر میں نے کچھ لوگوں کو سزائیں دی ہیں تو اس سے میرا مقصود خیر ہی رہا ہے۔ اور میں نے جو عمل کیا ہے اس سے اللہ سے توبہ کرتا ہوں اور اس سے مغفرت چاہتا ہوں، اس کے سوا کوئی بخشنے والا نہیں۔ میرے رب کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے۔ اللہ کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی نا امید ہوتے ہیں، وہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور سیئات کو معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے۔ میں اللہ سے سوالی ہوں کہ مجھے اور تمھیں بخش دے اور اس امت کے دلوں کو خیر پر ملا دے اور فسق کو ناپسند بنا دے۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ‘‘ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے یہ خط یوم ترویہ سے ایک دن قبل لوگوں کو پڑھ کر سنایا۔[1] ۲۔ کیا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں سے مدد طلب کی؟ طبری کی روایت کے مطابق سیف بن عمر کا خیال ہے کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کر لیا گیا تو آپ نے اپنے گورنروں کو خط لکھ کر ان سے مدد طلب کی، چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر روانہ کیا، اسی طرح عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے مصر سے کیا، اور کوفہ سے قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنی فوج لے کر نکلے۔[2] لیکن یہ خیال فتنہ سے نمٹنے میں عثمان رضی اللہ عنہ کے منہج سے میل نہیں کھاتا۔ آپ عافیت اور قتال سے اعراض کو ترجیح دیتے تھے۔ آپ کو یہ یقین تھا کہ میں قتل ہوں گا اور اسی طرح آپ نے دفاع کرنے والے اکابر صحابہ اور ان کی اولاد کو واپس کر دیا، بلکہ اپنے غلام و موالی کو سختی کے ساتھ قتال سے منع کر دیا بلکہ جو اپنا ہاتھ روک لے اس کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ نے گورنروں سے مدد طلب نہیں کی اور سیف بن عمر
Flag Counter