Maktaba Wahhabi

491 - 534
کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمھیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘ پھر آپ نے مسلمانوں سے فرمایا: مدینہ والو! میں تمھیں الوداع کہتے ہوئے اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ میرے بعد تم پر اچھی خلافت لائے۔ اللہ کی قسم! آج کے بعد میں کسی کے پاس نہیں جاؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں اپنا فیصلہ پورا کر دے۔ میں ان خوارج (باغیوں) کو اپنے دروازے کے پیچھے چھوڑ دوں گا، ان کا کوئی مطالبہ پورا نہیں کروں گا کہ وہ لوگ اسے تمہارے خلاف دین یا دنیا میں حجت بنا لیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی اس سلسلہ میں جو پسند کرتا ہے کرے گا۔ ‘‘ پھر آپ نے مدینہ والوں کو اپنے گھروں کو واپس ہو جانے کا حکم دے دیا اور قسم دلائی، لوگ لوٹ گئے، حسن، محمد اور ابن زبیر اور ان جیسے نوجوان رہ گئے اور اپنے آباء کے حکم سے عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھ کر پہرہ دینے لگے اور بہت سے لوگ ان کے ساتھ مل گئے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے گھر کو لازم پکڑ لیا یہاں تک کہ موت کا وقت آگیا۔[1] ۴۔ استشہاد عثمان رضی اللہ عنہ : ۱۔محاصرہ کا آخري دن اور خواب: …محاصرہ کے آخری دن جس دن آپ کی شہادت ہوئی، آپ اس رات سوئے اور صبح لوگوں سے بیان کرنے لگے کہ یہ لوگ آج مجھے قتل کر دیں گے۔[2] پھر آپ نے فرمایا: میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ کے ساتھ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عثمان! ہمارے ساتھ افطاری کرنا۔ آپ نے صبح روزہ رکھا اور پھر اسی دن آپ شہید کر دیے گئے۔[3] ۲۔شہادت کي تفصیلات: …باغیوں نے گھر پر دھاوا بول دیا، ان کے مقابلہ میں حسن بن علی، عبداللہ بن زبیر، محمد بن طلحہ، مروان بن حکم، سعید بن العاص رضی اللہ عنہم اور ان کے ساتھ جو ابنائے صحابہ تھے ڈٹ گئے اور قتال شروع ہو گیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے آواز لگائی: اللہ! اللہ! تم لوگ میری نصرت سے آزاد ہو۔ لیکن ان نوجوانوں نے بات نہ مانی، عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام نصرت کے لیے پہنچے، آپ نے انہیں روک دیا، بلکہ یہ اعلان کر دیا کہ جو اپنا ہاتھ روک لے، وہ آزاد ہے۔[4]
Flag Counter