Maktaba Wahhabi

98 - 534
لیے نقص ہو گا اور تمہاری رائے محفوظ نہ رہے گی۔ اس لیے کہ خواہشات و اہواء مشترک ہیں اور معصیت و گناہ کا لیڈر ابلیس ہر ہلاکت و تباہی کی طرف دعوت دینے والا ہے۔ وہ تم سے پہلے گزشتہ اقوام کو تباہ کر چکا ہے اور انہیں جہنم جیسے برے مقام پر پہنچا چکا ہے۔ بدترین قیمت یہ ہے کہ انسان کے حصہ میں اللہ کے دشمن کی دوستی آئے جو معصیت کا داعی ہے۔ پھر تم حق کو اختیار کرو اور اس کے لیے سختیوں کو برداشت کرو اور اپنے نفس کے لیے واعظ بنو، میں تمہیں اللہ کی قسم دلاتا ہوں کہ تم مسلمانوں پر رحم کھانا، بڑوں کا اجلال و اکرام کرنا اور چھوٹوں پر رحم کرنا، عالموں کی توقیر و تعظیم کرنا، مسلمانوں کو مارنا نہیں کہ وہ ذلیل ہو جائیں، اور مال فے کو اپنے لیے مخصوص نہ کر لینا جس سے وہ غصہ ہو جائیں۔ انہیں ان کے عطیات سے محروم نہ رکھنا کہ وہ محتاج ہو جائیں، ان کو اس طرح جنگ میں نہ جھونک دینا کہ ان کی نسلیں ختم ہو جائیں۔ مال کو صرف اغنیاء کے درمیان محصور نہ رکھنا۔ اپنا دروازہ ان کے سامنے بند نہ کرنا کہ قوی ضعیف کو کھا جائے۔ یہ میری تمہیں وصیت ہے اور میں اللہ کو تم پر گواہ بناتا ہوں۔ والسلام علیکم‘‘۔[1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ وصیت حکومت اور ادارہ کے مسائل میں بے نظیر ہے اور ان کے مکمل نظام اور منہج کو واضح کرتی ہے۔ دینی، سیاسی، عسکری، اقتصادی اور اجتماعی امور سے متعلق حکومت کے لیے اہم دستاویز ہے۔ اس وصیت کے اہم اصول و مبادی یہ ہیں: ۱۔ تقویٰ اور خشیت الٰہی کا اہتمام: ٭ تقویٰ اور ظاہر و باطن میں قول و فعل کے اندر خشیت الٰہی پر حرص شدید کی وصیت: کیوں کہ جو اللہ سے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کو بچاتا ہے، اور جو اس کی خشیت اختیار کرتا ہے وہ اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ اس لیے بار بار اس وصیت میں عمر رضی اللہ عنہ نے تقویٰ اور خشیت الٰہی کی تاکید فرمائی۔ ((اوصیک بتقوی اللّٰه وحدہ لاشریک لہ۔)) ’’میں تمہیں اللہ وحدہٗ لاشریک لہ سے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘ ((واوصیک بتقوی اللّٰه والحذرمنہ۔)) ’’اور میں تمہیں اللہ سے تقویٰ اختیار کرنے اور اس کے عذاب سے بچنے کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘ ((واوصیک ان تخشی اللّٰه۔)) ’’اور میں تمہیں اللہ کی خشیت اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘
Flag Counter