Maktaba Wahhabi

99 - 534
٭ اقامت حدود: قریب و بعید سب پر حدود الٰہی کو قائم کرنے کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ((لا تبال علی من وجب الحق۔)) ’’جس پر حق واجب ہو جائے اس کی پروا نہ کرنا۔‘‘ ((ولا تأخذک فی اللّٰه لومۃ لائم۔)) ’’اللہ کے حقوق کے سلسلہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرنا۔‘‘ کیوں کہ حدود کو شریعت نے بیان کیا ہے لہٰذا یہ دین کا ایک حصہ ہے، اور شریعت الٰہی لوگوں پر حجت ہے اور لوگوں کے اعمال و افعال اسی کی روشنی میں تولے جائیں گے اور حدود الٰہی سے غفلت دین اور معاشرہ کی تباہی و بربادی ہے۔ ٭ استقامت: یہ دین و دنیا کی ضروریات میں سے ہے، حاکم پر قولاً و فعلاً اس سے متصف ہونا واجب ہے اور پھر رعیت پر بھی۔ فرمایا: ((کن واعظا لنفسک۔)) ’’اپنے نفس کے لیے واعظ بنو۔‘‘ ((وابتغ بذلک وجہ اللّٰہ والدار الآخرۃ۔)) ’’اس کے ذریعہ سے تم اللہ کی رضا اور دار آخرت کے طالب بنو۔‘‘ ۲۔ سیاسی پہلو: ٭ عدل و انصاف کا التزام: کیوں کہ عدل و انصاف حکومت و سلطنت کی اساس و بنیاد ہے، اور رعیت کے درمیان عدل و انصاف کا قیام حکومت کو سیاسی و اجتماعی قوت و ہیبت بخشتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں حاکم کی ہیبت و احترام میں اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے عدل کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ((واوصیک بالعدل۔)) ’’میں تمہیں عدل و انصاف کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘ ((واجعل الناس عندک سواء۔)) ’’لوگوں کو اپنی نگاہ میں برابر رکھنا۔‘‘ ٭ پہلے اسلام لانے والے مہاجرین و انصار کا خیال: کیوں کہ انہوں نے اسلام کی طرف سبقت کی اور عظیم خدمات پیش کی ہیں، اور یہ عقیدہ اور اس سے جو سیاسی نظام برپا ہوا یہ انہی کے کندھوں پر قائم ہوا، یہی لوگ اس کے حاملین اور محافظ و حامی تھے چنانچہ وصیت کرتے ہوئے عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
Flag Counter