Maktaba Wahhabi

100 - 335
’’افسوس کہ اس ادارے نے اپنی زندگی کا ایک سال بھی پورا نہیں کیا تھا کہ حاجی شیخ عبد الرحمن صاحب اس ادارے کا سارا بوجھ اپنے لڑکے حاجی عبدالستار اور اپنے بھائی شیخ عطاء الرحمن کے سر ڈال کر راہی ملک (بقا) ہوگئے، مزید افسوس کہ حاجی عبدالستار صاحب بھی عین عالمِ شباب میں رحلت کر گئے اور ساری ذمے داری شیخ عطاء الرحمن صاحب پر آگئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بانیِ مدرسہ حاجی عبدالرحمن صاحب مرحوم کی ساری توانیائیں ، صلاحیتیں ، وسائل حتی کہ ان کی عمرِ عزیز اسی کارِخیر کی منتظر تھی، اِدھر مدرسے کا قیام عمل میں آیا، اُدھر آپ نے دعوتِ اجل کو لبیک کہا۔ اللّٰہم اغفرلہ وارحمہ‘‘[1] تعمیر کے وقت کے احساسات: جب مدرسے کی تعمیر شروع ہوگئی تو لوگوں میں انبساط و مسرت کی لہر دوڑ گئی اور اچھے تعلیمی مستقبل کا تصور کرکے لوگ شاداں و فرحاں نظر آنے لگے، اس وقت لوگوں کے احساسات کے بارے میں اس مدرسے میں داخلے کے امیدوار حکیم عبدالکریم قریشی (میسور) لکھتے ہیں : ’’....... مدرسے کی تعمیر اتنی ہوگئی تھی کہ بنیاد کے اوپر کہیں دو اور کہیں تین فٹ کی دیواریں اٹھ گئی تھیں ، اکثر اہلِ حدیث طلبا اِس مقام کا طواف کیا کرتے تھے اور یہ تمنا کرتے تھے کہ ان شاء اﷲ ہم بھی اس مدرسے میں داخلہ لے کر یہیں تعلیم حاصل کریں گے۔۔۔، جیسے جیسے مدرسے کی عمارت کی دیواریں بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھیں ، دو قسم کی جماعتوں میں دو قسم کے احساسات بھی پختہ تر ہوتے جارہے تھے:
Flag Counter