Maktaba Wahhabi

106 - 335
مدرسے کے افتتاحی پروگرام کا آنکھوں دیکھا حال: اس افتتاحی مجلس میں شریک مولانا حکیم عبدالکریم قریشی اس پروگرام کی بابت لکھتے ہیں : ’’ہزاروں تمناؤں اور آرزوؤں کے جھرمٹ میں اﷲ اﷲ کرکے آخر وہ یومِ مبارک و مسعود، جس کا بڑی بے چینی کے ساتھ انتظار کیا جا رہا تھا آن پہنچا، یعنی اس آب و گل اور حجر و حدید کے مجموعے کو ایک مخصوص اسم سے موسوم کرکے رحمتِ خداوندی کا مہبط اور ملائکہ سماوی کے نزول وشہود کا مرکز بنانا تھا۔ اشتہارات شاہراہوں ، مساجد اور مدارس اسلامیہ کے نوٹس بورڈوں پر چسپاں ہوگئے۔ دن اور تاریخ تو ا س وقت افسوس ہے کہ مستحضر نہیں ہے،[1] لیکن وقت و مقام اور شرکا و حضارِ محفل کے نورانی چہرے ابھی تک میرے پردۂ تخیل پر اس طرح مرتسم ہیں کہ گویا کل ہی کی بات ہے اور تازہ منظر ہے کہ ’’لم یعف رسمھا‘‘ ’’صبح کا وقت یہی کوئی دس ساڑھے دس بجے کا آوان ہوگا کہ مدرسے کی جانب جو بڑا سا ہال تھا، اس میں دریوں اور چاندنیوں کا فرش بچھا ہوا تھا۔ مدعوین جوق در جوق چلے آرہے تھے، اس ہال کے اندر جنوب مشرقی گوشے میں جو پختہ اسٹیج بنا ہوا تھا، وہاں حضرت مولانا امرتسری رحمہ اللہ مع چند علما کے رونق افروز تھے۔ حضرت مولانا سیالکوٹی رحمہ اللہ اِدھر اُدھر انتظامات و ہدایات دینے میں مصروف تھے۔ دہلی کے متمول و مرفہ الحال مسلمانوں میں سے خصوصاً پنجابی طبقہ موجود تھا اور منتظمین انتظامات میں مشغول و منہمک تھے۔ یہ مال دار مذہب پرست طبقہ ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں مصروف تھا۔ ہر شخص کے چہرے پر مسرت و بہجت، شادمانی و شادکامی
Flag Counter