Maktaba Wahhabi

22 - 335
وہاں پہنچ گئے، لیکن حالات کی رفتار انتہائی بے رحم ہوچکی تھی اور دہلی کے گلی کوچوں میں فسادات کا خونی پہیہ تیزی سے گھوم رہا تھا،اور مولانا تقریظ احمد کا وہاں رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدرسہ جماعت کے ہاتھ سے نکل گیا لیکن اﷲ کا شکر ہے کہ کسی غیر مسلم ادارے یا خاندان کے قبضے میں نہیں آیا، بلکہ ایک مسلمان تعلیمی ادارے کی تحویل میں چلا گیا اور لائبریری جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سپرد کر دی گئی۔ ان خوف ناک حالات میں یہ بہت مناسب سلسلہ تھا، جو زیرِ عمل آیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی ایک اور کوشش: تقسیمِ ملک کے زمانے میں سنا تھا کہ امرتسر میں جب مولانا ثناء اللہ امرتسری کے فرزندِ گرامی مولانا عطاء اللہ ثنائی کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو مولانا ابو الکلام آزاد نے چند سرکاری آدمیوں کو امرتسر بھیجا کہ مولانا ثناء اللہ صاحب کے کتب خانے کی حفاظت کی جائے اور مولانا سے رابطہ کرکے یہ معلوم کیا جائے کہ وہ کہاں تشریف لے جانا چاہتے ہیں ؟ جہاں وہ جانا چاہیں ان کا کتب خانہ وہیں پہنچا دیا جائے، لیکن اس وقت حالات بہت خراب ہوچکے تھے۔ وہ لوگ جب امرتسر پہنچے تو مولانا امرتسر سے نکل گئے تھے اور ان کا کتب خانہ ضائع ہوگیا تھا۔ اب آگے چلیے! ہندوستان کے بعض اہلِ علم نے اپنے ملک کے دینی مدارس کے موضوع پر کتابیں لکھی ہیں اور کہیں تفصیل اور کہیں اختصار کے پیرائے میں ان کا ذکر کیا ہے۔ اس ضمن میں ایک کتاب جامعہ سلفیہ بنارس کے استاذِ محترم مولانا عزیز الرحمن سلفی کی تصنیف ہے، جو ’’جماعت اہلِ حدیث کی تدریسی خدمات‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اس میں ہندوستان کے نئے پرانے بے شمار مدارس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ کتاب اس موضوع سے متعلق کتبِ حوالہ میں گردانی جائے گی اور میں نے اپنی ایک
Flag Counter