Maktaba Wahhabi

248 - 335
مدرسے کا کتب خانہ بھی یہیں منتقل کر دیا۔ نامعلوم کن اسباب کی بنا پر مولانا نے بہت جلد دار الحدیث رحمانیہ کو خیر باد کہہ دیا، البتہ جن طلبا کو اپنے مدرسے سے یہاں منتقل کیا تھا، جاتے وقت ان کو رحمانیہ ہی میں تعلیم مکمل کرنے کی ہدایت کرگئے۔ مولانا کے شاگردوں میں حکیم مولانا عصمت اﷲ رحمانی مؤی، حکیم مولانا محمد سلیمان رحمانی مؤی، راقم کے دادا مولانا عبدالعلی مؤی، مولانا محمد اسماعیل سلفی گجرانوالہ، مولانا ابو حفص عثمانی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں ۔ 2۔ شیخ الحدیث مولانا احمد اﷲ صاحب پرتاپ گڈھی (متوفی ۱۳۶۲ ھ) شیخ حسین یمنی، مولانا سلامت اﷲ جیراج پوری، ڈپٹی نذیر احمد اور دیگر اساتذہ سے کسبِ فیض کیا اور مولانا سید نذیر حسین دہلوی، شیخ محمد بن عبد اللطیف بن ابراہیم نجدی، مولانا شمس الحق ڈیانوی اور شیخ قاضی محمد مچھلی شہری سے سند و اجازہ حدیث حاصل کی۔ تمام زندگی درس وتدریس میں گزاری۔ پورے بیس سال مدرسہ علی جان دہلی میں پڑھایا۔ اسی دوران میں دار الحدیث رحمانیہ کی تاسیس ہوئی۔ مہتمم صاحب نے آپ کو تدریس کے لیے یہاں بلالیا۔ یہاں آپ کتبِ حدیث، اصولِ حدیث ، تفسیر، اصولِ فقہ، فرائض وغیرہ کا درس دیتے رہے۔ شیخ الحدیث کی حیثیت سے آپ نے ۱۹۳۸ء تک یہاں تدریسی خدمت انجام دی، پھر یہاں سے مستعفی ہو کر مدرسہ زبیدیہ دہلی چلے گئے۔ آپ کے تلامذہ میں شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ صاحب رحمانی مبارک پوری، مولانا عبد السلام صاحب بستوی، مولانا نذیر احمد صاحب املوی، مولانا محمد یونس صاحب پرتاپ گڈھی ، مولانا حافظ محمدگوندلوی، مولانا عبد الغفار حسن عمر پوری، مولانا محمد زمن صاحب رحمانی بستوی، مولانا عبد الرؤف صاحب جھنڈانگری ، مولانا محمد بشیر صاحب مبارک پوری ، مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی وغیرہ ہیں ۔ یرحمھم اللّٰہ أجمعین۔[1]
Flag Counter