Maktaba Wahhabi

275 - 335
تھے۔ یہ جلسہ لاہور موچی دروازہ میں ہوا تھا۔ کس سن میں آمد ہوئی؟ یاد نہیں ، اتنا یاد ہے کہ پاکستان بننے کے بعد تشریف لائے تھے۔ 8، 9۔ مولانا محمد سلیمان مؤی اعظمی ومولانا عبد الرؤف صاحب بنگالی: ’’ان دونوں حضرات سے میں نے ابتدائی عربی کتابوں کی تعلیم حاصل کی، میزان منشعب، نحو میر وغیرہ۔ 10۔ مولانا عبداﷲ صاحب ندوی: ’’مولانا موصوف کا تقرر رحمانیہ میں اس وقت ہوا جب کہ میراآخری تعلیمی سال تھا۔ مولانا موصوف کا عربی ادب کا ذوق بہت اچھا تھا۔ راقم الحروف نے ان سے دیوان حماسہ پڑھی۔ بہت اچھے انداز میں پڑھاتے تھے۔ اشعار کی تشریح کبھی عربی میں اور کبھی اردومیں کرتے۔ شاعری کا ذوق اور ملکہ بھی تھا۔ کبھی ترنم کے ساتھ اپنے اشعار سنایا کرتے تھے۔ شیخ عطاء الرحمن مہتمم مدرسہ بھی ان کی بہت قدر کرتے اور ان کے مشوروں پر عمل کرتے تھے، ان کے پاس اکثر عربی ادب کی کتابیں زیرِ تدریس رہتی تھیں ۔ ’’مولانا موصوف دار العلوم ندوۃ العلما کے فارغین میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔ ۱۹۵۲ء میں جب راقم الحروف اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ دعوتی دورے پر مشرقی پاکستان ’’مرحوم‘‘ گیا تو استاذ محترم سے بنگشالی مسجد میں ملاقات ہوئی اور جمعے کی نماز کے بعد مولانا محترم نے مجھے تقریر کا موقع دیا۔ اصل میں استاذ محترم نے مجھے خطبہ جمعہ کے لیے بلایا تھا، لیکن میں بروقت نہ پہنچ سکا، اس لیے بعدمیں تقریر کا موقع ملا۔ بنگال کے مسلمانوں میں ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ دینی مواعظ بڑی توجہ سے
Flag Counter